امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے قائم مقام نائب سیکریٹری ایلس ویلز نے پاکستان میں لشکر طیبہ کے چار مبینہ رہنماؤں کی گرفتاری کا خیر مقدم کیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق ایلس ویلز نے کہا ہے کہ لشکر طیبہ کے کئی حملوں سے متاثر ہونے والے افراد کا حق ہے کہ وہ ان ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی ہوتے ہوئے دیکھیں۔
بیان میں جماعت دعوۃ کے رہنما حافظ سعید کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہو۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ عسکریت پسند گروہوں کو اس کی سرزمین استعمال کرنے سے روکا جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین روز قبل چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔
انگریزی روزنامے 'ڈان' کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کالعدم جماعت دعوۃ کے چار اعلی ترین عہدیداروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ گرفتاریاں نیشنل ایکشن پلان کے تحت عمل میں آئی ہیں۔
انگریزی اخبار 'دی نیوز' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتار چاروں افراد کے نام پروفیسر ظفر اقبال، یحیٰ عزیز، محمد اشرف او عبد السلام بتائے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید پہلے ہی گرفتار ہیں۔ ان پر بھی دہشت گردوں کی مالی مدد کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔
ایک اور انگریزی اخبار 'پاکستان ٹوڈے' نے رپورٹ کیا کہ سی ٹی ڈی کی کارروائی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فرانس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ جس میں پاکستان کے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان اقدامات کی روشنی میں ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی اقدام کر سکتا ہے۔
پاکستان کے انگریزی روزنامے 'ایکسپریس ٹریبیون' کے مطابق کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کا دعویٰ ہے کہ ان کا کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی سے تعلق نہیں ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حافظ سعید کے زیر نگرانی کام کرنے والے نیٹ ورک میں 300 سے زائد اسکول، مدارس اور اسپتال کام کر رہے ہیں جبکہ ان کا ایک اشاعتی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایمبولینس سروس بھی ملک میں چلتی رہی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت، حافظ سعید کو 2011 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کا مرکزی ملزم قرار دیتا ہے جس میں 170 سے زائد بھارتی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم پاکستان کا موقف رہا ہے کہ بھارت کی جانب سے حافظ سعید کے حملے میں ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔
واضح رہے کہ حکومت نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو رواں برس 17 جولائی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا،
حافظ سعید کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت کئی نئے مقدمات قائم کر کیے گئے۔
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے مطابق جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید احمد کی گرفتاری کسی اور کے نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں کی گئی۔ پاکستان میں اب کسی کو بندوق لے کر گھومنے اور امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
خیال رہے کہ 2001 سے لے کر اب تک متعدد بار حافظ سعيد گرفتاری، نظر بندی، ضمانت اور باعزت بری ہونے کے باعث شہ سرخيوں ميں رہے ہیں۔
بھارت کی پارلیمان پر 2001 میں ہونے والا حملہ ہو، 2008 کے ممبئی حملے یا پھر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مسلح کارروائیاں، نئی دہلی ان کا ذمہ دار حافظ سعید کو ٹھہراتا رہا ہے لیکن پاکستان کی عدالتوں میں کبھی ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔
حافظ سعيد کی گرفتاری ايک ايسے وقت عمل ميں لائی گئی تھی جب وزيرِ اعظم عمران خان چند روز بعد امریکہ جا رہے تھے جہاں انہوں نے 22 جولائی کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ جس میں امریکی صدر نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کو ثالثی کی بھی پیشکش کی تاہم نئی دہلی نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
حافظ سعید کی گرفتاری سے دو ہفتے قبل سی ٹی ڈی پنجاب کے ترجمان کے بیان کے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم جماعت الدعوۃ، لشکر طیبہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے لیے مالی وسائل جمع کرنے کے الزام کے تحت 23 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ترجمان کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ مقدمات لاہور، گوجرانوالہ اور ملتان میں درج کیے گئے جن افراد کے خلاف ان کا اندراج ہوا ان میں حافظ سعید، عبدالرحمٰن مکی، امیر حمزہ، ملک ظفر اقبال، محمد یحییٰ عزیز، محمد نعیم، محسن بلال، عبدالرقیب، ڈاکٹر احمد داؤد، ڈاکٹر محمد ایوب، عبداللہ عبید، محمد علی اور عبدالغفار سمیت دیگر کو نامزد کیا گیا۔
دوسری جانب گزشتہ ماہ کے آغاز میں بھارت نے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید، ان کے نائب ذکی الرحمن لکھوی، جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ قانون یو۔ اے۔ پی۔ اے۔ کے تحت انفرادی دہشت گرد قرار دیا تھا۔
بھارتی حکومت مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دینے پر اپنی فہرست کا حصہ بنایا تھا۔ حافظ سعید پر ممبئی حملوں، لال قلعہ پر حملے اور رامپور کے سی آر پی ایف کیمپ پر حملے کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ اسی طرح ذکی الرحمن لکھوی کو کئی حملوں میں ملوث قرار دیا گیا جبکہ داؤد ابراہیم کو 1993 میں ممبئی میں ٹرینوں میں ہونے والے سلسلے وار بم دھماکوں کا ذمہ دار بتایا گیا۔
اس سلسلے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ٹوئٹر پر بھارتی حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا تھا کہ ہم مولانا مسعود اظہر، حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور داؤد ابراہیم کو دہشت گرد قرار دینے پر بھارت کے ساتھ ہیں۔