'ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ فواد چوہدری نے سب سے پہلے سینئر صحافی شاہد مسعود کو ہدف بنایا۔ وہ فواد چوہدری کی وزارت کے بنائے ہوئے مقدمے میں 60 دن جیل کاٹ کر آئے۔ ان کے خلاف فرد جرم تک عائد نہیں ہو سکی اور پھر ان کو ضمانت ملی۔ پھر میرے ساتھ جو ہوا سب کے سامنے ہے اور آج مبشر لقمان ان کی دست درازی کا شکار ہو گئے۔' یہ کہنا ہے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے بحیثیت میزبان وابستہ سمیع ابراہیم کا۔
رپورٹس کے مطابق چند ماہ قبل فیصل آباد ہی میں ایک شادی کے دوران فواد چوہدری سمیع ابراہیم سے الجھ پڑے تھے اور فواد چوہدری اُن پر ہاتھ تک اٹھا بیٹھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس حوالے سے سمیع ابراہیم بتاتے ہیں کہ میں نے بہت کوشش کی کہ حکومتی اداروں سے انصاف لے سکوں لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔
ان کے بقول میں توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے بھی میری استدعا نہیں سنی۔
انہوں نے بتایا کہ فواد چوہدری کے بھائی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ پیمرا نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور میری طرف سے ایف آئی آر تک کٹوانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی طرح شاہد مسعود کی بھی کہیں داد رسی نہیں ہوئی۔
سمیع ابراہیم کا کہنا تھا کہ اب تو صحافی کہنے لگ گئے ہیں کہ وزیر اعظم کی کابینہ میں اور ان کے قریبی حلقے میں ایک گروپ ایسا بن گیا ہے جو عمران خان کے ایک پاکستان کی سوچ کا احترام کرتا ہے اور نہ وزیر اعظم کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔
سمیع ابراہیم کے مطابق ایک سینئر صحافی نے مبشر لقمان پر فواد چوہدری کے ہاتھ اٹھانے کی خبر سن کر مجھے کہا 'لگتا ہے اگلا نمبر میرا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال اصل میں اب یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا فواد چوہدری وزیر اعظم عمران خان کے پسندیدہ ہیں اور ان کو اشارہ ہے کہ سب کو کھینچ کے رکھو؟
اتوار کو فیصل آباد میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں شادی کی ایک تقریب میں وفاقی وزیر فواد چوہدری اور ٹی وی میزبان مبشر لقمان کے درمیان تلخ کلامی اور پھر ہاتھا پائی ہوئی۔
اس حوالے سے فواد چوہدری کہتے ہیں کہ یہ 'اسکفل' یعنی دھینگا مشتی تھی جس میں ایک آدھ اِدھر سے لگ گئی اور ایک آدھ اُدھر سے۔
فواد چوہدری کا ہاتھ صحافیوں پر کیوں اٹھ جاتا ہے؟
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ میرا صحافیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں لیکن 'صحافیوں کے روپ میں کچھ دلال آ گئے ہیں۔ جو کیمرا اٹھا کر سمجھتے ہیں سب کی عزتوں سے کھیل جائیں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ مبشر لقمان نے اپنے یوٹیوب چینل میں کہا کہ 'میری حریم شاہ کے ساتھ بہت خطرناک ویڈیو ہے۔ اب اگر کوئی کہے کہ کسی کی پورن وڈیو موجود ہے تو آخر اس بندے کے پلے کیا رہے گا؟'
ان کے بقول یہ پاکستان ہے۔ امریکہ میں شاید بڑی بات نہ ہو۔ یہاں ماں، بہن، بچے اور خاندان ہے۔ ان سب کی عزت داو پر لگ جاتی ہے۔ ان کا کیا قصور؟
الزام جتنا بھی بڑا ہو کیا وزیر کو اختیار ہے کہ اپنے ہاتھوں سے انصاف کر لے؟
اس سوال پر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ کاش پاکستان میں بھی عدالتیں اسی طرح ہتک عزت کے مقدمات میں فیصلے کرتیں جیسے امریکہ اور باقی دنیا میں ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق وہاں تو الزام لگانے والے صحافی نہ صرف نوکریوں سے جاتے ہیں بلکہ جرمانے ادا کرنے کے لیے ان کی املاک تک فروخت ہو جاتی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں عدالتیں ہتک عزت کو سنجیدہ نہیں لیتیں۔ تو پھر یہاں لوگ اپنی عزت پر حرف آنے کے بدلے قتل کر دیتے ہیں اور سب سے زیادہ قتل عزت کے نام پر ہوتے ہیں۔
فواد چوہدری کے بقول ہاتھ اٹھانا تو کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔
اس سوال پر کہ طاقتور لوگ اپنی مرضی کا انصاف خود کر سکتے ہیں عام آدمی ہتک عزت کے مسئلے کے ساتھ کہاں جائے؟ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ میں یہی بات ہر جگہ کر رہا ہوں۔ عدالتیں، ایف آئی اے اور سائبر کرائم کے ادارے فعال ہوں اگر نظام نہیں ہو گا تو پرسنل ہنڈلنگ ہی ہو گی۔
چند ماہ پہلے سمیع ابراہیم پر ہاتھ اٹھانے کے واقعے کے پس منظر میں فواد چوہدری کہتے ہیں کہ میرا قصور اتنا تھا کہ وہ جس چینل میں کام کر رہے تھے میں اس چینل کے ایک غریب ملازم کے لیے تنخواہ کی بات کر رہا تھا اور میرے خلاف 35 پروگرام کیے گئے۔ مجھ پر کبھی 'را' کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا تو کبھی مذہبی منافرت کا ہتھیار میرے خلاف استعمال کیا گیا۔
جب وفاقی وزیر سے سوال کیا گیا کہ کیا وزارت میں آنے کے بعد برداشت جواب دے گئی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ کبھی کسی پروفیشنل صحافی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ 'صحافت میں کچھ دلال آ گئے ہیں جو اپنے یوٹیوب چینلز پر ٹریفک بڑھانے، کلکس لینے کے لیے کچھ بھی بول دیتے ہیں، ایسا کب تک چلے گا؟'
ان کے مطابق صحافتی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ خود بھی ایسے نام نہاد صحافیوں کی گوشمالی کریں لیکن افسوس کہ آج تک ایسا نہیں ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ واقعہ ہو گیا۔ اب منہ پھیرو اور آگے دیکھو۔ ایسے نہیں چلے گا۔
دوسری جانب سمیع ابراہیم کہتے ہیں فواد چوہدری کے غصے کا ایک سبب ہے۔
ان کے بقول چھوٹے برتن میں زیادہ آ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے رہنما حامد خان کی کتاب پڑھ لیجیے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج ان کے چچا تھے۔ ان کے لیے وہ کیا کرتے تھے؟ ان کا عروج دیکھ لیں۔ فواد چوہدری نے کبھی اس کتاب کو چیلنج نہیں کیا۔
مبشر لقمان سے اس واقعے پر ان کا ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ فیصل آباد میں ہونے والے واقعے کے بارے میں اپنا بیان تیار کر رہے ہیں اور مصروف ہوں اس لیے ایک دن بعد اپنا موقف دے سکیں گے۔
'یہ ایک نامناسب رویہ ہے'
فواد چوہدری اور سمیع ابراہیم کے درمیان پیش آنے والے واقعے پر راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری آصف علی بھٹی کہتے ہیں کہ یہ ایک نامناسب رویہ ہے۔ تحمل کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تھا۔
ان کے بقول دوسری طرف بھی دیکھنا چاہیے کہ ہر ایک (صحافی) اپنی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
حریم شاہ کی پہنچ کہاں تک اور کیوں؟َ
سمیع ابراہیم کہتے ہیں کہ کیا کہوں حریم شاہ نے تو سب کو بے نقاب کر دیا ہے۔
ان کے بقول حریم شاہ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کی اخلاقی قدریں اور اصلیت کیا ہے۔
سوشل میڈیا ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک سے شہرت حاصل کرنے والی حریم شاہ کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیروں کی ویڈیوز اس کے پاس ہیں۔ ہر ایک کے پاس وہ چلی جاتی ہے۔ یہی بات کریں تو فواد چوہدری کو بری لگتی ہے۔ اخلاقی طور پر دیوالیہ پن ہے۔
ان کے بقول بجائے اس کے کہ ایکسپوز ہونے کے بعد یہ لوگ اپنا رویہ درست کریں۔ معافی مانگیں اپنی غلطی تسلیم کریں۔ انہوں نے لوگوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری حریم شاہ کی ٹک ٹاک ویڈیوز اور بظاہر بڑے دفاتر تک رسائی کو معمول کی بات کہتے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میری تو آج تک حریم شاہ سے ملاقات نہیں ہے۔ جو لوگ ان کو بھیج رہے ہیں وہ پورا رِنگ (گروہ) چلا رہے ہیں۔ ہماری حکومت اور وزرا کے دروازے ہر آدمی کے لیے کھلے ہیں۔ وہاں کوئی بھی آ سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ روزانہ تصویریں بنواتا ہوں لیکن یہ جس طریقے سے ایک رِنگ (جرائم پیشہ گروہ) کی طرز پر یہ لڑکیاں چلا رہے ہیں۔ یہ جو دو تین یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں جو انہوں نے بنائے ہوئے ہیں۔ وہ صحافت کے منہ پر تمانچہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ خود ان کے خلاف کارروائی کرتیں۔
حریم شاہ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتی ہیں اور اسی سے ان کو شہرت ملی بعد ازاں متعدد وزرا کے ہمرا ان کی ویڈیوز سامنے آئیں جس پر سوشل میڈیا پر تبصرے ہوئے۔