پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ساڑھے تین کروڑ روپے واجب الادا ٹیکس جمع کرانے کا حکم جاری کیا ہے۔
ایف بی آر نے سرینا عیسیٰ کو یہ نوٹس ٹیکس ادائیگی سے متعلق جمع کرائے گئے جواب پر اعتراض عائد کرتے ہوئے بھیجا ہے۔
نوٹس پر ردِ عمل دیتے ہوئے سرینا عیسی کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے انہیں سنے بغیر قانونی حکم نامہ جاری کیا ہے جسے وہ چیلینج کریں گی۔ کیوں کہ تحقیقات کے دوران فراہم کیے گئے تمام شواہد نظر انداز کیے گئے۔
سرینا عیسی کی ٹیکس معاملات کی تحقیقات سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جا رہی ہیں جس میں اعلیٰ عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیرون ملک اثاثے چھپانے کے صدارتی ریفرنس کو مسترد کیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایف بی آر کی تحقیقات میں اگر بیرون ملک جائیداد کی خریداری میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کوئی کردار ہوا تو سپریم جوڈیشل کونسل اس بارے میں از خود نوٹس لے کر مذکورہ جج کے خلاف کارروائی کی مجاز ہو گی۔
ایف بی آر کی جانب سے سرینا عیسیٰ کو ٹیکس ادائیگی سے متعلق یہ نوٹس 14 ستمبر کو ارسال گیا تھا۔
سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر کے نوٹس پر اخباری بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے اپنا مؤقف نہ سنے بغیر حکم نامہ جاری ہونے کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اس کے خلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایف بی آر کے اس فیصلے کے خلاف اپیل ایپلٹ ٹربیونل میں کی جائے گی جسے مسترد کیے جانے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتی ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر کے حکم نامے میں ان کی تنخواہ، زرعی آمدن اور کراچی میں جائیداد کی فروخت سے حاصل آمدن شامل نہیں ہے۔
ان کے بقول ایف بی آر نے بار بار درخواست کے باوجود انہیں گوشواروں کی تفصیلات نہیں دیں۔
اپنے بیان میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم، مشیرِ داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر، سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان، ایف بی آر سے محمد اشفاق اور ذوالفقار احمد کے تعاون سے ان کے خلاف جھوٹا کیس تیار کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ایف بی آر نے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں کی تحقیقات کی رپورٹ 100 روز میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کرنی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تین ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔