اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ مارک لوکاک نے شام کے صوبے ادلب میں بدترین انسانی بحران کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 100 سال کے دوران ایسے بدترین انسانی بحران کی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں ہے۔
مارک لوکاک کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس کی حمایت یافتہ شامی فوج باغیوں کے زیر قبضہ آخری علاقے واگزار کرانے کے مراحل میں ہے۔
ادلب کو ایک معاہدے کے تحت رواں سال ستمبر تک تحفظ فراہم کیا جانا تھا لیکن یہ علاقہ تین ماہ سے شام کی حکومت اور اس کے اتحادی روس کی افواج کی گولا باری کی زد میں ہے۔
شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ حملوں سے شہری آبادیوں کو شدید جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔
رواں ہفتے ادلب کے رہائشی قصبے اریہا پر ہونے والے فضائی حملے میں سات بچوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سلامی کونسل سے منگل کے روز خطاب میں مارک لوکاک نے کہا تھا کہ حملوں کو روسی حمایت حاصل ہے جب کہ اپریل کے آخر سے اب تک 450 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
لوکاک کے مطابق انہوں نے ادلب کی صورت حال سے متعدد مرتبہ خبردار کیا ہے لیکن اس کے باوجود کونسل کی طرف سے عدم توجہ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
ادھر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر صحت عامہ کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹرز کی تنظیم فزیشنز فار ہیومن رائٹس کی ڈائریکٹر سوزینہ سرکن نے بھی اقوام متحدہ پر شامی علاقوں میں صحت کے مراکز پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مندوب وصیلے نیبینزیا نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے جس میں کہا جا رہا تھا کہ روس دانستہ اسکولوں اور اسپتالوں کو بمباری میں نشانہ بنا رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں شام کی حکومت کے لیے روس اور مغربی ممالک کی شام کی حزب اختلاف کے لیے حمایت سے وسیع خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ سلامتی کونسل میں یہ تقسیم شام کی صورت حال کو بہتر کرنے کی راہ میں اقوام متحدہ کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔