پاکستان میں سیلاب کے باعث لاکھوں ایکڑ پرکھڑی فصلیں تباہ ہونے سے غذائی اجناس کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں میں آٹے کی قلت کی شکایات عام ہو رہی ہیں جب کہ ماہرین چاول کی کمی کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ گندم کی قلت دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جب کہ چاول کی ممکنہ قلت کو روکنے کے لیے حکمتِ عملی طے کی جا رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ چاول کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کا درست تخمینہ ایک، ڈیڑھ ماہ تک ہو جائے گا۔
ماہرین کے مطابق ابتدائی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان بالخصوص سندھ میں اتنے بڑے پیمانے پر چاول کی فصل پہلے تباہ نہیں ہوئی جتنی موجودہ سیلاب سے ہوئی ہے۔
حکومتِ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 66 اضلاع کو سرکاری طور پر آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ 20 لاکھ ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئی ہیں، جن میں کپاس اور دھان سرفہرست ہیں۔اس کے علاوہ آٹھ لاکھ سے زیادہ جانور ہلاک یا سیلابی ریلوں کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔
گندم اور آٹے کا بحران کیوں پیدا ہوا؟
سیلاب کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں آٹے کی قیمتیں سرکاری اداروں کے کنٹرول سے باہر ہونے کی شکایات عام ہیں۔ آمد و رفت کے ذرائع معطل ہونے اور کچھ اضلاع میں گوداموں میں موجود گندم خراب ہونے کے باعث گندم کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار پنجاب اور سندھ میں ہوتی ہے جہاں گندم کی سرکاری قیمت 2200 روپے فی من مقرر تھی۔ البتہ حال ہی میں پنجاب میں گندم کی سرکاری قیمت تین ہزار روپے من اور سندھ میں چار ہزار روپے من مقرر کردی گئی،جس کے بعد ذخیرہ اندوزی میں بھی اضافہ ہوا اور جن لوگوں کے گوداموں میں پہلے سے گندم موجود تھی، انہوں نے اس کی فروخت روک دی تاکہ نئی سرکاری قیمت پر اسے فروخت کیا جا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب پاکستان کا صوبہ بلوچستان اپنی ضرورت کی نصف گندم پیدا کرتا ہے جب کہ باقی دیگر صوبوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
ملک میں حالیہ سیلاب سے بلوچستان میں آٹے کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ہفتے کے دوران 100 کلو آٹے کی بوری کی قیمت 10 ہزار سے بڑھ کر 13 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔
بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل خوراک ظفر اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ سیلابی ریلوں اور بارشوں کے بعد سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے صوبے میں آٹے کا بحران پیدا ہوا۔
ڈی جی خوراک کے مطابق گندم کی تین لاکھ بوریاں کوئٹہ اور پشین کے گوداموں میں محفوظ ہیں جو کہ صوبے کی ضرورت پوری کرنے کےلیے ناکافی ہیں،لہٰذا مزید گندم کی خریداری کے لیے پاسکو سے بات جاری ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت سے بھی رابطہ کیا ہے تاکہ پنجاب سے آٹا اور گندم لانے کی منظوری دی جاسکے۔
آٹے کی قیمت 130 روپے کلو تک جا پہنچی
ادھر وفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے علاوہ پنجاب کے تمام اضلاع میں آٹا سرکاری نرخوں پر دستیاب ہی نہیں، اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمت 130 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔
گوجرانوالہ کی غلہ منڈی کے ایک آڑھتی شیخ قیصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت نے تو گندم کا سرکاری نرخ 3000 روپے فی من مقرر کردیا ہے لیکن منڈیوں میں گندم3500ے 3800 روپے من میں فروخت ہو رہی ہے ، فلور ملز نے آٹے کے اپنے اپنے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہے ہیں۔
پنجاب میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 980 روپے ہے جو مارکیٹ میں کئی جگہوں پر دستیاب ہی نہیں۔پنجاب کے مختلف اضلاع میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1600 سے 1800روپے تک پہنچ گیا ہے۔ جب کہ چکی مالکان نے ایک ہی دن میں آٹے کی فی کلو قیمت میں 25 روپے کا اضافہ کردیا ہے اور چکی کے آٹے کی نئی قیمت 125 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں سیلاب سے 528 بچے ہلاک، ڈیڑھ کروڑ سے زائد متاثر ہوئے: یونیسیفچکی مالکان کا مؤقف ہے کہ غلہ منڈیوں میں قلت کے سبب گندم مہنگی مل رہی ہے جب کہ وہ بجلی کے بھاری بل بھی ادا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے آٹا مہنگا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
پنجاب فلور ملز ایسوسی ایشن کے نائب صدر گوہر سعید کا کہنا ہے کہ چند روز میں آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 300 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے گندم کی نئی فصل کی امدادی قیمت کا اعلان کیا تو اس کے بعد سے آٹے اور گندم کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی۔
چاول کی فصل کو نقصانات
سیلاب کے باعث جنوبی پنجاب اور سندھ میں دھان کی تیار فصل کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، جس کے باعث یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ چاول کی سب سے اعلیٰ قسم سپر باسمتی اور نان باسمتی اقسام اری اور ہائی برڈ کے برآمدی آرڈر متاثر ہو سکتے ہیں۔
محکمۂ زراعت پنجاب کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ جنوبی پنجاب کے کچھ اضلاع میں 28 ہزار ایکڑ رقبے پر دھان کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ 34 ہزار میٹرک ٹن فصل تباہ ہوئی ہے ، جو حکام کے مطابق اری اور دھان کی 386 اقسام تھیں۔
پاکستان رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن پنجاب اور سندھ میں دھان کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات کی رپورٹس اکٹھی کررہی ہے اور ابتدائی طور پر جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس نے چاول کے برآمد کنندگان کو پریشان کردیا ہے۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کی مینجنگ کمیٹی کے ایگزیکٹو رکن میاں صبع الرحمان نے انکشاف کیا کہ اس وقت سندھ میں لگ بھگ 10 لاکھ ایکڑ رقبے پر چاول کی فصل سیلابی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے، جس سے کم از کم آٹھ لاکھ ایکڑ رقبے کی فصل خراب ہونے کے خدشات ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول اگر سات سے آٹھ لاکھ ایکڑ پر لگی فصل خراب ہوئی تو اس سے 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوگا۔ کیوں کہ گزشتہ سال 250 کروڑ ڈالر کی چاول کی برآمدات کی گئی تھیں لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں سے اس میں50 کروڑ ڈالر کی کمی آئے گی۔
پنجاب میں سپرباسمتی کی پیداوار حافظ آباد، سیالکورٹ ، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین، نارووال، گجرات، لاہور کے اضلاع میں ہوتی ہے۔ یہ علاقے سیلاب سے محفوظ ہیں۔ تاہم سندھ میں پیدا ہونے والا باسمتی چاول سیلاب کے باعث بری طرح متاثر ہوا ہے۔
دھان پاکستان کی ایک بڑی فصل
محکمۂ زراعت پنجاب کے حکام کے مطابق پاکستان میں 22ملین یعنی دو کروڑ 20 لاکھ ایکڑ رقبہ قابل کاشت ہے، جس میں سے رواں سال 59 لاکھ 17 ہزار ایکڑ رقبے پر دھان کاشت کی گئی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے اضلاع میں سپرباسمتی 46 لاکھ 25 ہزار ایکڑ پر کاشت کی گئی۔
یہ فصل ان دنوں تیاری کے مراحل میں ہے اور اس فصل کی کٹائی سندھ میں اکتوبر کے پہلے ہفتے اور پنجاب میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوجاتی ہے۔
دھان کی قسم اری ساڑھے تین لاکھ ایکڑ جب کہ دیگر متفرق اقسام نو لاکھ 42 ہزار ایکڑ پر کاشت کی گئی ہیں۔
رواں سال پنجاب میں چاول کی پیداوار کا تخمینہ 53 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا ہے، جس میں سپرباسمتی سر فہرست ہے اور اس کی پیداوار 40 لاکھ ، 14 ہزار میٹرک ٹن ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اسی طرح اری کا پیداواری تخمینہ تین لاکھ 66 ہزار میٹرک ٹن اور دیگر اقسام کا پیداواری تخمینہ نو لاکھ 21 ہزار میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔
دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل زراعت توسیع پنجاب ڈاکٹر محمد انجم علی کہتے ہیں کہ وسطی پنجاب میں سپر باسمتی کی فصل تاحال محفوظ ہے، تاہم سندھ میں حالات مختلف ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ملک بھر میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کے بارے میں سروے کر رہی ہے جس میں اجناس کو پہنچنے والے نقصانات بھی شامل ہیں۔
میاں صبع الرحمان نے بتایا کہ گزشتہ برس پاکستان میں 85 لاکھ ٹن چاول کی پیداوار ہوئی تھی جس میں سے 40 لاکھ ٹن مقامی منڈیوں میں فروخت کیا گیا جب کہ 45 لاکھ ٹن چاول برآمد کیا گیا، جس کی مالیت250کروڑ ڈالرز تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی رائس ایکسپورٹرز نے بڑی محنت سے پہلی بار دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالرز برآمدات کا ہدف حاصل کیا تھا جو رواں سال سیلاب کے باعث کم ہوجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پریشان ہیں کہ اب برآمدات کے آرڈرز کس طرح پورے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال 45 لاکھ ٹن چاول کی برآمدات کے مقابلے میں رواں سال برآمدات 37 سے 38 لاکھ ٹن رہنے کی توقع ہے، جس سے پاکستان کی برآمدات میں 50 سے 60 کروڑ ڈالرز کی واضح کمی آئے گی۔
ان کے بقول سیلاب کے باعث ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کے اثرات کئی برسوں تک نظر آئیں گے۔