پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں سے صوبۂ پنجاب کی حکومت کے خاتمے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ان افواہوں کا ذکر سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی اپنے جلسوں میں کرتے رہے ہیں لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف کی چند روز قبل لندن میں اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کے بعد ان افواہوں میں تیزی آ گئی ہے۔
پنجاب حکومت کے خاتمے کا سب سے پہلے تذکرہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے رواں ماہ سات ستمبر کو ایک جلسے سے خطاب کے دوران کیا تھا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ پنجاب حکومت گرانے کی سازش ہو رہی ہے جب کہ مسٹر 'ایکس' اور 'وائی' دھمکیاں دے رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ سازش کون کر رہا ہے؟ اور مسٹر 'ایکس' اور مسٹر 'وائی' سے کیا مراد ہے؟
پنجاب حکومت کو گرانے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں مشاورت کی خبریں بھی زیرِ گردش ہیں۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی چند روز قبل لندن میں اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں بھی پنجاب حکومت کے خاتمے پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔ تاہم سرکاری طور پر یا آزاد ذرائع سے اِن امور کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے خاتمے کی بات صرف اِس لیے کی جاتی ہے کہ سیاسی طور پر سیاسی مخالفین کو دباؤ میں رکھا جا سکے اور فی الحال عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
واضح رہے پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف اکثریتی جماعت ہے اور وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کی قیادت میں موجودہ پنجاب حکومت کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے عدالتِ عظمٰی سے رجوع کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ ( ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی اپنے ارکانِ اسمبلی کے خلاف جماعت کی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے پر الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر پنجاب میں فریقین ایک دوسرے کو ڈرانے کے لیے حکومت گرانے کے بیانات دے رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت اس طرح کی کوئی تحریک نظر نہیں آ رہی۔
ان کے بقول پنجاب حکومت کے سیاسی مخالفین یہ بات اِس لیے کرتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ رہے اور وہ مستحکم طریقے سے اپنا کام جاری نہ رکھ سکے۔ پنجاب حکومت سیاسی طور پر الجھی رہے گی تو اِس کا فائدہ سیاسی مخالفین کو ہو گا۔
عمران خان کی جانب صوبائی حکومت کے خاتمے کی باتیں کرنے سے متعلق بیان پر مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ وہ یہ بات اِس لیے کرتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی ان کے طابع رہیں اور ہر بات میں اُن سے مشاورت کرتے رہیں۔
ان کے بقول عمران خان پنجاب حکومت کے خاتمے کی باتیں کر کے اسٹیبلشمنٹ پر بھی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایسا کچھ نہ کر سکیں۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی مشترکہ حکومت ہے اور اسے ایوان میں چند ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پاس 178 نشستیں ہیں جب کہ مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد 10 ہے اس طرح ایوان میں حکمران اتحاد کی کل تعداد 188 بنتی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں کو ملا کر کل تعداد 179 ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ اِس وقت پنجاب حکومت بظاہر مضبوط نظر آتی ہے جسے کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے بقول پنجاب حکومت کے خاتمے کی بات یا اس کے خلاف کسی بھی سازش کے تانے بانے کہیں ملتے یا ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت گرانے کے بیانات مسند ذرائع سے سامنے آنے کے بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ آتے ہیں جن کی اہمیت کم ہے۔
'اپوزیشن کو ایوان میں برتری ثابت کرنا مشکل ہو گا'
نسیم زہرہ کے مطابق نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان اِس موضوع پر کوئی بات ہوئی یا نہیں اِس بارے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن سیاست میں اِس طرح کے ییانات آتے رہتے ہیں۔
مجیب الرحمان شامی کے بقول اگر گورنر پنجاب موجودہ وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ بھی دیں تو موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اِن کے اتحادیوں کو اپنی برتری ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اِس وقت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے وہ مضبوط ہیں۔ اگر کوئی امیدوار پارٹی پالیسی کے خلاف وزیرِ اعلیٰ کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو عدالتِ عظمٰی کے فیصلے کی روشنی میں ایسا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔
تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی سیاسی اعتبار سے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے ہیں اور وہ مستقبل کی سیاسی حکمتِ عملی بنا رہے ہیں، اس وقت اُن کی ساری توجہ حکومت کو بہتر انداز میں چلانے پر ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ پرویز الٰہی آنے والے دِنوں میں پنجاب کے مختلف محکموں میں درجہ اول سے درجہ چہارم تک ایک لاکھ سینتیس ہزار بھرتیوں کی اجازت دیں گے۔
افتخار احمد کی رائے میں مسلم لیگ (ن) پرویز الٰہی کی حکومت ختم کرنے کے لیے اِس لیے متحرک نہیں ہو گی کہ آئندہ عام انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ ایسے میں وہ چند ماہ کے لیے اپنی حکومت نہیں بنائے گی۔
ان کے بقول اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان پنجاب حکومت کے خاتمے کی بات ہوئی ہے تو ابھی تک وزیراعلٰی کا امیدوار سامنے نہیں آیا۔ عام انتخابات سے تین ماہ قبل عبوری حکومت کا بننا ضروری ہے، جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مختصر وقت کے لیے (ن) لیگ ایسا نہیں کرے گی۔