پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کی واپسی کی اطلاعات نے جہاں عوامی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ وہیں بعض مبصرین کہتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان عدم تعاون سے بھی دہشت گردی بڑھنے کا خدشہ ہے۔
خیال رہے کہ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ (ن) جب کہ صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہے، جو بیشتر قومی معاملات پر مختلف مؤقف رکھتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے اگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس سنجیدہ معاملے پر سر نہ جوڑے تو دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے سدِ باب کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان کوئی مشترکہ اجلاس ہوئے بھی عرصہ ہو چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب 2009 میں سوات میں فوجی آپریشن کیا گیا تو اس وقت بھی وفاق اور صوبے میں الگ، الگ جماعتوں کی حکومتیں تھیں۔ مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی جب کہ صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی حکومت میں تھی۔ لیکن باہمی مشاورت سے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کیے گئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پشاور میں انگریزی روزنامہ' ڈان' کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان کہتے ہیں کہ ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان سیاسی کشیدگی کے باعث رابطوں اور مشاورت کا فقدان ہے تو دوسری طرف وفاقی سطح پر قومی سلامتی کونسل کا بھی اجلاس نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ تو مذاکرات کی مشروط حمایت پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کی تھی ۔ لیکن اسماعیل خان کہتے ہیں کہ اگرچہ خیبر پختونخوا میں امن و امان قائم رکھنا بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر طالبان کا مسئلہ ایک قومی اور وفاقی مسئلہ ہے لہٰذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو پہل کرنا ہو گی۔
پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلافات شدیدہو گئے ہیں جس کا براہ راست فائدہ عسکریت پسندوں کو پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپریل کے بعد سے مرکز میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پشاور اور اسلام آباد کے درمیان نہ صرف رابطے منقطع ہیں بلکہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے وفاقی او ر صوبائی حکومت کے درمیان کسی قسم کی مشاورت نہیں ہوئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دہشت گردی اور تشدد کے تازہ ترین واقعات
وادی سوات کے تحصیل مٹہ اور سیاحتی علاقے مالم جبہ کے بعد اب تحصیل کبل اور مینگورہ میں بھی پولیس چوکیوں پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
مینگورہ کے سینئر صحافی عیسی خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات اور جمعے کے درمیانی شب مینگورہ شہر کے نواحی علاقے سنگوٹہ میں پولیس اورنامعلوم افراد کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک نامعلوم حملہ اور ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح ایک اور واقعے میں نامعلوم مسلح افراد نے ڈی ایس پی سیدوشریف کے دفتر پر حملہ کیا تاہم پولیس کی جوابی کارروائی کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے۔
سوات پولیس کے جمعے کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ منگلور کے علاقے میں انسدادِ دہشت گردی پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں ایک مبینہ شدت پسند ہلاک ہو گیا ہے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ شدت پسند تین واقعات میں پولیس کو مطلوب تھا۔
سوات کے صحافی عیسیٰ خان خیل کے مطابق مٹہ اور مالم جبہ کی پہاڑی چوٹیوں پر سیکیورٹی فورسز کے دستے پہنچ چکے ہیں مگر سرکاری طور پر عسکریت پسندوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی شروع ہونے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب کہ علاقے میں ہیلی کاپٹرز بھی وقتاً فوقتاً پروازیں کر رہے ہیں۔
عیسیٰ خان خیل کا کہنا ہے کہ سوات کے مختلف علاقوں کی صورتِ حال کے بارے میں انتطامیہ کی طرف سے عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔
وادیٔ سوات کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک ویڈیو پیغام میں دور افتادہ وادیٔ تیراہ کے بعد پشاور سے ملحقہ باڑہ کے علاقے اکاخیل پہنچ کر اپنے ٹھکانے قائم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
دوسری جانب ضلع خیبر کی تحصیل جمرود او ر کوہاٹ میں تین مختلف واقعات میں نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکار ہلاک جب کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک رہنما کو قتل کر دیا گیا۔
دوسری جانب کوہاٹ میں سابق وفاقی وزیر داخلہ شہریار خان آفریدی کے آبائی گھر پر جمعرات کی رات نامعلوم افراد نے دستی بم سے حملہ کیا لیکن اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
صوبائی حکومت کا مؤقف
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف وادیٔ سوات اور دیگر علاقوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر بیانات دیتے رہتے ہیں مگر ابھی تک صوبائی سطح پر امن و امان کے بارے میں کوئی باضابطہ اجلاس نہیں ہوا۔
چند روز قبل عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے صوبائی حکومت پر سوات کے معاملات کے سلسلے میں وزیراعلی اور صوبائی وزرا پر تنقید کی تھی۔
تجزیہ کار عرفان خان کے بقول دہشت گردی کے عوامی خدشات کے باوجود صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی واضح حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی۔ لیکن بیرسٹر محمد علی سیف کا دعوٰیٰ ہے کہ صوبائی حکومت امن و امان کے حوالے سے اپنے فرائض سے پوری طرح آگاہ ہے ۔
تحریکِ انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ مالاکنڈ ڈویژن ایک حساس علاقہ ہے، مگر ماضی کے برعکس اس بار عسکریت پسند مقامی لوگوں کی حمایت سے محروم ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت خود حالات پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔