|
اسلام آباد _ حکومت کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی اور اہم رہنماؤں پر آرٹیکل چھ لگانے کے اعلان کو 10 روز گزر جانے کے باوجود وفاقی کابینہ سے اس کی منظوری حاصل نہیں کی جا سکی۔
بدھ کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت کابینہ کے اجلاس میں تحریکِ انصاف پر پابندی کا معاملہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ البتہ وزیرِ اعظم نے اجلاس کے دوران تحریکِ انصاف اور عمران خان کو تنقید کا نشانہ تو بنایا مگر پارٹی پر پابندی سے متعلق کوئی ذکر نہیں کیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی آفیشل ویب سائٹ سے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر اور ان کے خاندان کے خلاف باتیں کی جا رہی ہیں۔معصوم شہریوں اور افواج کے خلاف ایسا کوئی اقدام برداشت نہیں کریں گے اور ملکی مفاد کے تحفظ کے لیے کسی قدم سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
وفاقی کابینہ کا یہ اجلاس پہلے منگل کو شیڈول تھا اور امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اجلاس میں تحریکِ انصاف پر پابندی کے فیصلے کی منظوری لی جائے گی۔ لیکن منگل کو کابینہ کا اجلاس ہی نہ ہو سکا۔
اس سے قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے 15 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔
عطا تارڑ نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے خلاف ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں جس کی بنا پر اس پر پابندی لگائی جائے گی اور کابینہ سے پابندی کی منظوری کے بعد معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا۔
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بدھ کو اپنے آفیشل فیس بک اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کی کئی وجوہات ہیں۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شواہد پر مبنی چند ایسے واقعات ہیں جن کی روشنی میں پی ٹی آئی کا پابندی ناگزیر ہو چکی ہے۔
وفاقی حکومت نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کیس دائر کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
تحریکِ انصاف نے حکومتی فیصلے کی مذمت کی تھی۔
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر واضح مؤقف اختیار نہیں کیا ہے جب کہ اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے حکومتی فیصلے کو غیر منطقی قرار دیا تھا۔
امریکہ نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی واشنگٹن کے لیے باعثِ تشویش ہوگی۔
'اتفاقِ رائے کا انتظار ہے'
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی سینئر رہنماؤں کی جانب سے پی ٹی آئی پر فی الحال پابندی نہ لگائے جانے کے باوجود وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ کا اصرار ہے کہ حکومت اس ضمن میں اصولی فیصلہ کر چکی ہے۔
عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے لیے اتفاقِ رائے کا انتظار ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں منگل کو اظہار خیال کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ عمران خان یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ گرفتاری کی صورت میں اُنہوں نے فوجی ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کا کہا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہوگی، محکمۂ خارجہواضح رہے کہ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اپنی گرفتاری سے قبل انہوں نے کارکنان کو جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کی کال دی تھی۔
حکومتی حلقوں کے مطابق عمران خان نے ایک طرح سے یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی گرفتاری کی صورت میں انتشار پھیلانا چاہتے تھے۔ لہذٰا تحریکِ انصاف پر پابندی کے لیے یہ وجہ کافی ہے۔
لیکن تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پرامن احتجاج کی کال دی تھی جس کی جمہوری معاشرے میں اجازت ہوتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی کہا کہ تحریکِ انصاف پر پابندی سے متعلق وفاقی حکومت سنجیدگی سے سوچ رہی ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے پاس مواد موجود ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پر پابندی جیسے بڑے فیصلے سے قبل سیاسی جماعتوں سے حمایت چاہتی ہے. کیوں کہ مسلم لیگ (ن) جانتی ہے کہ اس ضمن میں سیاسی حکمتِ عملی اور قانونی ضوابط پورے کیے بغیر لیا گیا فیصلہ منفی نتائج چھوڑے گا۔
'مقتدرہ بھی پابندی پر سیاسی اتفاق چاہتی ہے'
سیاسی امور کے تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف پر پابندی کے فیصلے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت کے اندر بھی اس بارے میں مکمل اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو تحریکِ انصاف پر پابندی سے سیاسی فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ اگر پابندی جیسے سخت فیصلے کا اعلان کرتے ہیں تو ایسا نہ ہو کہ دیگر سیاسی جماعتیں حمایت میں نہ آئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پابندی کے معاملے پر گو مگو کا شکار ہے اور تاحال مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی سے اس بارے میں باقاعدہ مشاورت بھی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا مؤقف سامنے نہیں ہے۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مقتدرہ بھی پابندی سے قبل سیاسی اتفاقِ رائے چاہتی ہے۔
مظہر عباس کے بقول پی ٹی آئی پر پابندی کے معاملے پر حکومتی اتحادی جماعتوں میں مکمل اتفاقِ رائے ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سیاسی اتفاقِ رائے کے بغیر فیصلہ لینے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) تنہا ہو جائے گی اور اس صورت میں سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔
'پارلیمانی جماعت پر پابندی آسان نہیں'
اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ سیاسی جماعت پر پابندی ایک دھمکی کے طور پر تو کام کرتی ہے لیکن اس پر عمل کرنا آسان نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں درج طریقۂ کار کو دیکھیں تو کسی جماعت پر پابندی کے لیے حکومت کو شواہد پر مبنی مضبوط ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجنا ہوتا ہے جو کہ عدلیہ کے حالیہ مزاج کو دیکھتے ہوئے آسان نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے بھی اپنے حکومتی دور میں ٹی ایل پی پر پابندی لگائی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا تھا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پابندی سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہو جاتی بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنا راستہ بنا لیتی ہے جس کی ماضی میں مثالیں ملتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے یہ اقدام قانونی طور پر آسان نہیں ہو گا کیوں کہ سپریم کورٹ کو مطمئن کرنا مشکل ہو گا۔
طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے سے نہ صرف سیاسی تناو میں اضافہ ہوگا بلکہ حکومتی اتحادی بھی فاصلہ اختیار کر سکتے ہیں۔