فرگوسن: شوٹنگ کے واقع میں ملوث اہل کار کا نام ظاہر

نام کا اعلان فرگوسن پولیس کے سربراہ، تھومس جیکسن نے جمعے کے دِٕن کیا، جس سے قبل موت کی دھمکیوں کے خدشے کےپیش نظر، نام ظاہر نہیں کیا جارہا تھا

مِزوری کے قصبے میں، جہاں ایک پولیس اہل کار کے ہاتھوں ایک غیر مسلح سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت واقع ہوئی، گولی چلانے والے کا نام ظاہر کیا گیا ہے۔ اُن اہل کار کا نام ڈیرن ولسن بتایا جاتا ہے۔

نام کا اعلان فرگوسن پولیس کے سربراہ، تھومس جیکسن نے جمعے کے دِٕن کیا، جس سے قبل موت کی دھمکیوں کے خدشے کے پیش نظر، نام ظاہر نہیں کیا جارہا تھا۔

ہفتے کے روز ہونے والی شوٹنگ کے واقع کے بعد، مضافاتی علاقے، سینٹ لوئی کے محکمہٴپولیس نے ولسن کو انتظامی چھٹی پر روانہ کر دیا تھا۔

اس واقع کے نتیجے میں، قصبے میں تشدد کے واقعات بھڑک اٹھے، جب کہ امریکہ بھر میں لوگ 18 برس کے مائیکل براؤن کی یاد میں مجالس منعقد کر رہے ہیں۔

اس معاملے پر، جمعرات کو یکجہتی کی نوعیت کی تقریباً 100 تقریبات منعقد کی گئیں، جہاں مظاہرین نے براؤن کے لیے چند لمحات کی خاموشی کی گئی، جو پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

اس سے قبل، جمعرات ہی کو صدر براک اوباما نے تحمل سے کام لینے پر زور دیا، ایسے میں جب پولیس نے شدید احتجاج کے باوجود، سختی نہ برتنے کا انداز اختیار کیا۔

فرگوسن کے قصبے میں براؤن کی 9 اگست کو واقع ہونے والی ہلاکت کے بعد تقریباً ہر رات پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔


مسٹر اوباما کے بقول، کسی بھی بہانے کے تحت، پولیس کے خلاف تشدد کی راہ نہیں اپنائی جاسکتی، ناہی اِس المیے کو بہانہ بنا کر غنڈہ گردی یا لوٹ مار کی کوئی گنجائش نکلتی ہے۔

ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ ادھر پولیس کی طرف سے پُرامن احتجاج کے خلاف سخت طاقت کے استعمال کا کوئی بہانہ نہیں ہوسکتا، اور نا ہی آئین کی پہلی ترمیم کےتحت دیے گئے حقوق کا استعمال کرنے والے مظاہرین کو جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔