امریکی محکمہ خارجہ کے غیر مطبوعہ اعداد و شمار کے مطابق، ان ہزاروں افغان باشندوں میں سے ایک قلیل تعداد کو ویزوں کی پراسسنگ کے لیے سمندر پار منتقل کیا گیا ہے، جو پچھلی گرمیوں میں اعلان کردہ مہاجرین کی دوبارہ آبادکاری کے پروگرام کے تحت امریکہ جانے کے اہل ہیں۔
امریکہ جانے کے خواہش مند اہل افغان باشندوں کی درخواستوں کی پراسسنگ کے لیے دو بنیادی طریقے رائج ہیں۔ ایک عشروں پرانا طریقہ تارکین کے ویزے کا خصوصی پروگرام ہے جو فوج کے مترجم اور حکومتی فنڈ کے تحت کام کرنے والے کانٹریکٹرز کے لیے ہے۔ دوسرا طریقہ محکمہ خارجہ اور دوسرے اداروں کا مہاجرین کے داخلے کا پروگرام ہے۔
اگست کے شروع میں افغانستان میں امریکی سرپرستی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان تارکین وطن کے لیے خصوصی امریکی ویزے کی طلب میں اضافہ ہوا تو امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا کہ جو افغان تارکین خصوصی ویزے کے زمرے میں نہیں آتے وہ نئے ترجیحی پروگرام پی ٹو کے تحت مہاجرین کے ویزے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد کابل سے ایک لاکھ 24 ہزار لوگوں کو نکالا تھا لیکن اس کے باوجود باقی رہ جانے والے بیرون ملک منتقلی کے اہل ہزاروں افغان باشندے باہر جانے کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد چار ماہ میں تین لاکھ مہاجرین کی پاکستان آمدترجیحی پروگرام نمبر دو یا پی ٹو برائے تارکین وطن،ایسے صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی منتقلی کے لیے شروع کیا گیا تھا، جو افغانستان میں خطرے سے دوچار اورفوجی ترجمانوں کے لیے مختص تارکین وطن ویزے کے اہل نہیں۔
اس ویزے کے لیے وہ افراد اہل ہیں جنہوں نے افغانستان میں امریکی حکومت، امریکہ میں قائم کسی میڈیا تنظیم اور غیر حکومتی ادارے کے لیے کام کیا ہو اور لازمی طور وہ امریکہ میں قائم کسی ادارے سے منسلک رہے ہوں۔
ایسے افغان باشندے جو پی ٹو ویزے کی شرائط پوری نہیں کرتے، انہیں کابل میں امریکی سفارت خانہ، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اور کوئی غیر حکومتی مقرر کردہ ادارہ امریکی محکمہ خارجہ کے پہلے سے جاری پی ون ویزہ پروگرام کے لیے تجویز کر سکتا ہے۔
نامزد کیے جانے سے قطع نظر اس ویزہ پروگرام میں موجود ایک شق نے بہت سے افغان باشندوں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیا ہے۔ اس ویزے کے تحت درخواست گزاروں کو پہلے کسی تیسرے ملک میں جانا ہوتا ہے، جہاں ان کی درخواستوں کی پراسسنگ کی جائے گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اس عمل میں 14 سے 18 ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
امریکہ جانے کے خواہش مند ایسے افغان باشندے جن کے پاس افغانستان چھوڑنے کے لیے ضروری دستاویزات نہیں ہیں، یا کسی تیسرے ملک میں گزربسر کے وسائل نہیں ہیں، ان کے لیے یہ شرط ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس پروگرام کے لیے درخواست دینے والے ہزاروں افغان صحافی، انسانی حقوق اور امدادی اداروں کے کارکن اور دوسرے اہل افراد پھنس کر رہ گئے ہیں اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے محکمے کو پی ٹو ویزہ پروگرام کے لیے 12 ہزار جب کہ پی ون کے لیے 17 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
ان درخواستوں میں سے 4200 منظور کر لی گئی ہیں اور ساڑھے تین سو درخواست گزاروں سے کسی تیسرے ملک جن میں پاکستان اور ترکی بھی شامل ہیں منتقل ہونے کے لیے کہا گیا ہے جہاں ان کی درخواستوں کی پراسسنگ شروع ہو گئی ہے۔
ایک ریپبلکن کانگریس میں پیٹر میجر کا، جنہوں نے پچھلے سال خصوصی ویزہ پروگرام کی توسیع کی قانون سازی میں حصہ لیا تھا، کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی فوج اب افغانستان میں موجود نہیں ہے، لیکن ہمارا وہاں مشن ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ہمارے مترجم اور افغان ساتھی،جنہوں نے اورجن کے پیاروں نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا، ابھی تک افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اس ہفتے اقوامِ متحدہ نے افغانستان کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے امدادی فنڈز کی اپیل کی ہے، جس کا زیادہ تر حصہ طالبان حکومت کی بجائے صحت کے کارکنوں اور دوسروں کو براہ راست فراہم کیا جائے گا۔
امدادی گروپوں نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو غربت و افلاس کا سامنا ہے اور انسانی تاریخ کا ایک انتہائی بڑا انسانی بحران ان کی جانب بڑھ رہا ہے۔
(وائس آف امریکہ کے لیے یہ رپورٹ سنڈی سین اور نائیک چنگ نے مرتب کی)