رسائی کے لنکس

افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد چار ماہ میں تین لاکھ مہاجرین کی پاکستان آمد


وفاقی وزیرِ اطلاعات نے افغانستان کی صورتِ حال پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل کہا کہ 15 اگست کے بعد دو لاکھ 90 ہزار افغان شہری پاکستان میں آ چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)
وفاقی وزیرِ اطلاعات نے افغانستان کی صورتِ حال پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل کہا کہ 15 اگست کے بعد دو لاکھ 90 ہزار افغان شہری پاکستان میں آ چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دو لاکھ 90 ہزار افغان شہری پاکستان منتقل ہوئے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پڑوسی ملک میں انسانی بحران پیدا ہوا تو پناہ گزینوں میں بہت زیادہ ہو جائے گا۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے افغانستان کی صورتِ حال پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 15 اگست کے بعد دو لاکھ 90 ہزار افغان شہری پاکستان میں آ چکے ہیں۔

انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا تو پاکستان کی معیشت اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گی۔

پاکستان او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جو کہ اتوار کو اسلام آباد میں منعقد ہو گا۔

اس اجلاس کا مقصد معاشی مشکلات کے شکار ملک افغانستان کی امداد کا طریقہ کار وضع کرنا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان سے آنے والے نئے پناہ گزینوں کے تعداد بتائی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد حکومت کی بتائی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہو گی کیوں کہ رپورٹس کے مطابق ہزاروں افغان شہری غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کر کے پاکستان پہنچے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ہزاروں افغان شہری افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک میں بھی منتقل ہوئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے کچھ ہفتے بعد خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پانچ لاکھ افغان رواں سال کے آخر تک ہجرت کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں پہلے بھی لگ بھگ 30 لاکھ افغان پناہ گزین آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر 1980 میں سویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد آئے تھے۔

سویت یونین کے 1990 میں افغانستان سے انخلا کے بعد خانہ جنگی میں بھی لاکھوں پناہ گزینوں نے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کا رخ کیا تھا۔

رواں برس اگست کے وسط میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان نے مزید افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے سرحدیں بند کر دی تھیں۔

اسلام آباد کا کہنا تھا کہ پاکستان مخدوش معاشی صورتِ حال اور سیکیورٹی کے خدشات کے باعث افغان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کر سکتا ۔ البتہ بعد ازاں انسانی بحران کو دیکھتے ہوئے سرحد پر پابندیاں وقت کے ساتھ ساتھ نرم کر دی گئی تھیں۔

پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد کے زیادہ تر حصے پر خاردار باڑ لگا رکھی ہے جس کا مقصد سیکیورٹی خطرات بتائے جاتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق لگ بھگ دو کروڑ 28 لاکھ افغان شہری خوراک کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔

عالمی ادارہٴ خوراک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں موسم سرما میں ہزاروں افغان شہریوں کو فاقہ کشی یا ہجرت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے صورتِ حال کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے معاشی و انسانی بحران کے سبب مہاجرین کی یلغار کا خطرہ پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اگر افغانستان کی صورتِ حال پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے مضمرات نہ صرف خطے بلکہ یورپ کے لیے بھی ضرر رساں ہوں گے۔

امریکہ پاکستان کو کسی آزمائش میں نہ ڈالے: شاہ محمود
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:17 0:00

دو روز قبل وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 19 دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے اجلاس کا محور افغانستان کی صورتِ حال ہو گی۔

وزیرِ خارجہ نے کہا کہ دنیا کو افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ روابط رکھنے چاہیئں تاکہ افغانستان عدم استحکام کا شکار نہ ہو اور وہاں دہشت گردوں کو جگہ نہ ملے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کا مسئلہ اگر شدت اختیار کرتا ہے تو یہ صرف پڑوسی ممالک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر ممالک کو بھی متاثر کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG