افغانستان میں 2021 کے اختتام کے ساتھ ساتھ سردی کی شدت، حالات کی سنگینی اور مستقبل سے متعلق بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں برس اگست میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ زدہ اس ملک کے لیے بے یقینی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
طالبان نے جس تیزی سے کابل کا کنٹرول حاصل کیا تھا اس سے افغانستان کے لوگ اور دنیا دونوں ہی حیرت زدہ تھے اور بظاہر اس اچانک تبدیلی نے مستقبل سے متعلق کئی سوالات پیدا کر دیے تھے۔
اپنے اپنے سوال
افغانستان سے متعلق خدشات اور سوالات صرف افغان شہریوں کے لیے بے چینی کا باعث نہیں۔ حکمران بننے والے طالبان اور پوری دنیا افغانستان کے حالات اور ان سے جڑے خدشات سے دو چار ہیں۔
طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں ایک جنگجو گروہ سے ایک پیچیدہ اور متنوع قوم پر حکمرانی کے لیے خود کو تبدیل کرنا ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کو دہرے خطرات کا سامنا ہے۔ اول یہ کہ اگر افغانستان کے حالات مزید ابتر ہوتے ہیں تو مزید ہزاروں افغان شہری بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہوں گے۔
افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ حالات کی بے یقینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر القاعدہ اور دیگر شدت پسند عناصر افغانستان میں اپنے قدم جما سکتے ہیں۔
عام افغان شہری کے لیے ابھی اور آنے والے سال میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اسے خوراک، سر پر سائبان اور روزگار کہاں سے ملے گا؟ کیوں کہ یہی عام افغان شہریوں کی اولین ترجیح ہے۔
سب سے زیادہ کون متاثر ہو رہا ہے؟
افغان خواتین پر طالبان کی پالیسیوں کے اثرات سب سے واضح ہیں۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں خواتین کی وزارت کو مذہبی قوانین کے نفاذ کے لیے تشکیل دی گئی وزارت ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ میں تبدیل کر دیا تھا۔
اس وزارت کا تازہ ترین اقدام یہ ہے کہ اس نے خواتین پر لمبی مسافت کے سفر پر جانے کے لیے محرم کے ساتھ جانے کی شرط عائد کر دی ہے۔
'نہ تیاری ہے نہ منصوبہ'
افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک (اے اے این) کے لیے اپنی حالیہ خصوصی رپورٹ میں محقق کیٹ کلارک نے لکھا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے اثرات و نتائج تباہ کُن اور تیز رفتار ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کیٹ کلارک کا کہنا ہے کہ طالبان کے پاس حکومت کو امداد کے بغیر چلانے کی کوئی تیاری اور منصوبہ بندی نہیں۔
ان کے مطابق طالبان نے پوری طاقت جنگی محاذ پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے صرف کی جس کے لازمی نتائج وہی تھے جو افغانستان کی ابتر ہوتی صورتِ حال کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
کیٹ کلارک کہتی ہیں کہ طالبان جب حکومت میں نہیں تھے تو اپنے کنٹرول میں آنے والی آبادیوں سے ٹیکس وصول کرتے تھے لیکن انہوں نے عوامی خدمات کا کام حکومت، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور ڈونرز پر چھوڑ رکھا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اب طالبان حکومت میں ہیں تو انہیں پتا چل رہا ہے کہ حکومت کی آمدن انتہائی کم ہے اور انہیں پوری آبادی کا خیال رکھنا ہے۔
'بیورو کریسی زمیں بوس ہو چکی ہے'
طالبان کو درپیش سب سے بڑے مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ بیورو کریسی کا ڈھانچہ زمین بوس ہو چکا ہے۔
افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے آخری روز تک ایک لاکھ 20 ہزار افغان شہریوں کو ملک سے نکالا جا چکا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر افراد وہ تھے جو امدادی کارروائیاں کرنے، انتظامی امور اور معیشت کو چلانے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان کے قبضے سے قبل بھی کئی سرکاری ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں۔ ان ملازمین کو یقین نہیں کہ انہیں اب بھی تنخواہیں ملیں گی یا نہیں۔ ایسی صورت میں ان کا دوبارہ اپنا کام سنبھالنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
افغانستان کی وزارتِ خارجہ میں خدمات انجام دینے والے ٹیکنو کریٹ حضر اللہ کا کہنا کہتے ہیں کہ وہ روز صبح دفتر جاتے ہیں لیکن وہاں کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔
انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اس سے قبل وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر کام کرتے تھے لیکن اب ان کے لیے کام سے متعلق کوئی ہدایات نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اسے کیا کرنا ہے۔
امیج بہتر کرنے کی کشمکش
طالبان کے بعض رہنما اس کوشش میں ہیں کہ خود کو 1996 سے 2001 تک قائم رہنے والی حکومت سے الگ انداز میں پیش کریں۔ اس کے لیے طالبان نے کچھ کوششیں بھی کی ہیں۔
مثال کے طور پر اس بار طالبان نے خواتین کے لیے گھر سے نکلتے ہوئے چہرہ ڈھانپنے کے واضح احکامات جاری نہیں کیے ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کو بغیر محرم کے گھروں سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے جب کہ ماضی میں طالبان دورِ حکومت میں خواتین محرم کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی تھیں۔ البتہ طالبان کے حالیہ بیان میں لمبے سفر پر جانے کے لیے خواتین کے ساتھ کسی محرم کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
طالبان نے خواتین کو طب کے سوا دیگر شعبوں میں کام کرنے اور متعدد صوبوں میں ہائی اسکول میں پڑنے والی لڑکیوں کو تعلیم سے عملاً روک دیا ہے۔
عالمی سطح پر طالبان کو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں خواتین کو حقوق کی فراہمی سے متعلق مطالبات کا سامنا ہے۔
طالبان اپنے ان اقدامات کے جواز میں اسلام کے اصولوں اور احکامات سے متعلق اپنی تشریحات کو جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
انسانی المیے کے خدشات
'اے ایف پی' کے مطابق طالبان جب سے حکومت میں آئے ہیں افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طالبان جنگجوؤں کے علاوہ بالخصوص شیعہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والوں پر داعش کے حملے بڑھ گئے ہیں۔
امن و امان کی صورت سے بڑھ کر افغانستان میں ایک نیا چیلنج سنگین نوعیت اختیار کررہا ہے۔ اقوام متحدہ نے افغانستان میں پیدا ہونے والے اس انسانی المیے کو ’بھوک کا بڑھتا ہوا تودہ‘ قرار دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق معاشی صورتِ حال ہی افغانستان کے مستقبل کا تعین کرے گی۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق امدادی سرگرمیاں کرنے والے اداروں کے لیے وقت بہت کم ہے کیوں کہ انہیں تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔
اقومِ متحدہ کے دفتر برائے کوآرڈینیشن آف ہیومینیٹریئن ایمرجنسی کے مطابق افغانستان کی 55 فی صد آبادی کو اس موسمِ سرما میں خوراک کے عدم تحفظ سے متعلق ’ہنگامی بحران‘ کا سامنا ہے۔
امدادی سرگرمیاں کرنے والے ڈونرز کو افغانستان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ طالبان کے اقدامات کی وجہ سے وہاں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے یا بڑھانے میں میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ جب کہ طالبان ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس سے سمجھوتے یا پسپائی کا تاثر ملے۔ مثال کے طور پر خواتین کو ملازمت کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ اسی لیے کیا گیا ہے۔
امداد کس کا حق؟
گزشتہ بدھ کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں امدادی رقوم طالبان کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے امریکہ کی تجویز کردہ ایک قرارداد منظور کی ہے۔
طالبان نے اس قرار داد کا خیر مقدم کیا ہے لیکن اس خدشے کو مسترد کر دیا ہے کہ اس وقت افغانستان کو کسی بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔
مقامی سطح پر بعض امدادی تنظیمیں طالبان حکام سے بالا ہی بالا ضرورت مندوں میں براہ راست خوراک اور اشیائے ضروریہ تقسیم کر رہی ہیں۔
دیگر علاقوں میں طالبان کمانڈر اصرار کرتے ہیں کہ حکومت پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے امداد کی تقسیم پر پہلا حق ان کا ہے۔
افغانستان میں طالبان غیر ملکی قوتوں یا تنظیموں کے مطالبات کے زیرِ اثر نظر نہیں آتے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی قیادت اس بات پر زور دیتی ہے کہ امداد کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ یہ بات کئی ڈونر اداروں اور ممالک کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔
مستقبل کا منظر نامہ
کیٹ کلارک نے 'اے اے این' کی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر تمام امداد بلا امتیاز غریب ترین افراد تک پہنچتی ہے اور اچھی تعداد میں پہنچتی ہے تو اس سے بھی طالبان کو اپنی توجہ ریاست پر مضبوط گرفت کرنے پر مرکوز کرنے میں آسانی ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مستقبل کا منظر نامہ غیر واضح ہے۔ یہ غیر یقینی سے ایک اور غیر یقینی صورتِ حال کی جانب سفر ہے۔
'اے اے این' کی رپورٹ میں کیٹ کلارک لکھتی ہیں کہ امن سے جو اقتصادی فوائد مل سکتے ہیں ہو افغانستان کو درپیش تنہائی اور غیر ملکی آمدن کے خاتمے سے ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔