پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم کے معاملے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو تحقیقات کے لیے طلب کرلیا ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 50 سے زائد صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو طلبی کے نوٹس بھجوائے جا چکے ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے جن صحافیوں کو نوٹس بھیجے گئے ہیں ان میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی بیٹ کور کرنے والے صحافی بھی شامل ہیں۔
صحافیوں کی فہرست میں جن افراد کے نام سامنے آ رہے ہیں ان میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان، ثاقب بشیر، سہیل رشید، اسد علی طور، صابر شاکر بھی شامل ہیں۔ حالیہ نوٹسز ملنے والوں میں اینکر پرسن عمران ریاض بھی شامل ہیں جو چار ماہ سے زائد عرصے تک لاپتا رہے تھے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عمران وسیم کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پریس ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے اعلامیے کا نوٹس لے لیا ہے۔
ان کے بقول چیف جسٹس نے دونوں ایسوسی ایشن کے عہدے داروں سے ملاقات کی اور کہا کہ صحافیوں سے متعلق کیس پیر کو مقرر کر رہا ہوں۔ آپ کی جو گزارشات ہوں وہ عدالت میں بتائیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان پریس ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ پریس ایسویسی ایشن نے ان نوٹسز کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے اور تحقیقات میں شامل دیگر اداروں کو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عامل صحافیوں کے درمیان تفریق کرنی چاہیے اور انہیں ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں مختلف کیسز کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا پر ججز کے خلاف پروپگینڈا کیا گیا اور ان کی طرف سے دیے جانے والے بعض فیصلوں کو تعصب پر مبنی قرار دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کو 'بلے' کا انتخابی نشان نہ دینے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف پوسٹس کا ایک طوفان تھا جس کے بعد حکومت نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا فیصلہ کیا۔
جے آئی ٹی کے سربراہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم ونگ تھے جب کہ ٹیم میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے اور ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے کا نمائندہ بھی شامل تھا۔
جے آئی ٹی کے قیام کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ٹیم سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف مذموم مہم چلانے والوں کا پتہ لگائے گی اور ایسے افراد کو عدالت میں پیش کرکے چالان پیش کرے گی۔
سوشل میڈیا پر ججز اور اداروں کے خلاف مہم چلانے کے الزام میں ایف آئی اے سائبر ونگ نے نوٹسز جاری کیے ہیں۔ یہ نوٹسز سیکشن 160 کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے نے غلط معلومات پھیلانے پر 50 سے زائد افراد کو نوٹسز بھجوائے ہیں۔ ایف آئی اے کے پاس اس وقت 115 انکوائریز رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ یہ انکوائریز کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور میں جاری ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے افراد کو 31 جنوری کو دن 11 بجے ایف آئی اے اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے جب کہ دیگر شہروں کے صحافیوں اور ایکٹوسٹ کو ان کے شہروں میں موجود دفاتر میں طلب کیا گیا ہے۔
'نوٹسز کے ذریعے ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں'
اس معاملے پر سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ پریس ایسوسی ایشن کا ایک اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں اس صورتِ حال کی مذمت کی گئی۔
سپریم کورٹ پریس ایسویسی ایشن کے صدر میاں عقیل افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کی طرف سے عامل صحافیوں کو ان نوٹسز کا اجرا قابلِ مذمت ہے اور ہم اس بارے میں اپنے صحافی دوستوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
میاں عقیل نے کہا کہ ایف آئی اے یا تحقیقاتی ٹیم میں شامل کسی بھی ادارے کو صحافیوں اور کسی سیاسی جماعت سے منسلک افراد کے درمیان تفریق کرنی چاہیے۔ صحافیوں کی طرف سے جو بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جاتا ہے وہ عدالتی کارروائی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے جس میں کسی بھی جماعت یا شخص کی حمایت یا مخالفت نہیں کی جاتی۔
ان کے بقول صحافی صرف اپنا کام کرتا ہے لیکن انہیں اگر نوٹسز کے ذریعے ہراساں کیا جائے گا تو وہ اس کی بھرپور مذمت کریں گے۔
میاں عقیل کے بقول سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے خلاف ایف آئی اے جو بھی کارروائی کرے، وہ کرسکتا ہے کیوں کہ وہ شخص خود یا اس کی سیاسی جماعت عدلیہ مخالف پوسٹس کی ذمہ دار ہے۔ لیکن کسی صحافی کے خلاف ایسی کارروائی کی ہم مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ نوٹسز فوری طور پر واپس لیے جائیں۔
SEE ALSO: کیا میڈیا کے لیے سرکاری اشتہارات صحافتی اقدار پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ اگر صحافیوں کو ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ نہ رکا تو دیگر تمام صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر آئندہ کا لائحہ عمل بنایا جائے گا۔
'ہمیں قصور ہی نہیں بتایا گیا، نوٹس نامکمل ہے'
اسلام آباد میں '92 نیوز' سے منسلک سینئر صحافی فہیم اختر ملک کو بھی نوٹس بھجوایا گیا ہے جس کے بارے میں انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹس انہیں موصول ہوا ہے لیکن یہ نامکمل ہے جس میں کسی جگہ بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے اپنی کس سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے کسی آئینی ادارے یا شخصیت کی تضحیک یا ان پر تنقید کی ہے۔
فہیم اختر ملک کا کہنا تھا کہ صحافی کا کام خبر دینا ہے اور اگر کوئی ادارہ یا شخصیت اس سے متفق نہ بھی ہو تو ہمارا کام پھر بھی وہی رہتا ہے۔ ایسے نوٹسز کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنا درست اقدام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس نوٹس کے بارے میں ہم مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں جس میں وکلا، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ پریس ایسویسی ایشن سمیت صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے اس نوٹس کو چیلنج کرنے پر غور بھی کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول ہمیں ہمارا قصور بتایا ہی نہیں گیا اور صرف ہراساں کرنے کے لیے اپنے دفاتر طلب کرلیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اگر انہیں عدالت میں چیلنج کیا گیا تو بھی ہم عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑیں گے اور اگر ایف آئی اے میں بھی پیش ہونا پڑا تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بطورِ صحافی ہم نے خبر دی ہے، اس پر ہمیں کوئی افسوس یا مسئلہ نہیں ہے۔
'کسی شخص نے بھی قانون کے خلاف کوئی بات نہیں کی'
سینئر صحافی اور اینکر پرسن صابر شاکر کو بھی یہ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو نوٹس ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی اور دیگر صحافیوں کی پوسٹس دیکھی ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں کسی بھی شخص نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو قانون کے خلاف ہو۔
ان کے بقول بلے کے نشان پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صحافیوں اور دیگر افراد نے صرف فیصلے کے آئینی اور قانونی نکات پر بات کی ہے۔ اس کیس میں عوامی نیشنل پارٹی کی طرح جرمانہ کرکے انتخابی نشان دینا بنتا تھا لیکن یہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان میں اس وقت پسند کا حکومتی ڈھانچہ لانے کی اسکیم چل رہی ہے۔ بعض صحافیوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اس اسکیم سے لنک کیا۔ ایک سیاسی جماعت کو آئین و قانون سے ہٹ کر باہر نکالا گیا جس پر لوگوں نے اپنی رائے دی۔
SEE ALSO: ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ؛ ’برطانوی دور کا بغاوت کا قانون سیاسی مخالفین پر استعمال ہوا‘صابر شاکر کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت بعض لوگوں نے رائے دی کہ مرضی کی حکومت لانے کی اسکیم میں سپریم کورٹ استعمال ہوئی ہے اور یہ صرف صحافیوں کی نہیں بعض آزاد مبصرین اور وکلا کی بھی رائے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس رائے پر صحافیوں کو تو نوٹسز جاری ہوئے ہیں لیکن وکلا اور سابق ججز کو بھی نوٹس جاری کرنے چاہیے۔ ان کے بقول نوٹسز جاری کرنا ہراساں کرنے کا ذریعہ ہے جس میں ایک پلان کو کامیاب بنانے کے لیے صحافیوں اور آزاد مبصرین کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان نوٹسز کے بارے میں اب تک حکومت کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم حکومت ملک میں آزادئ صحافت پر قدغن کے حوالے سے تمام تر الزامات کی تردید کرتی آئی ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں صحافیوں کو مکمل آزادی ہے اور صحافت پر کسی قسم کی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں۔
فریڈم نیٹ ورک کے مطابق صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے پاکستان کو سال 2023 میں آزادئ اظہارِ رائے کے حوالے سے 180 ممالک میں سے 150 نمبر پر رکھا تھا۔