سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں گزشتہ چند سالوں سے مبینہ طور پر ٹارگٹ کلرز کی سرپرستی کرنے والی ایک پاکستانی نژاد امریکی خاتون کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کی رہائشی خاتون کے حوالے سے ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ وہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث گروہوں کی مالی سرپرستی کرتی رہی ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قواتین کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد کا کہنا ہے کہ بقول ان کے دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاری کے بعد ہونے والی تحقیقات کےنتیجے میں کہکشاں حیدر نامی خاتون کا انکشاف ہوا۔
البتہ، کہکشاں حیدر نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ اپنی ایک ٹوئٹ میں اُن کا کہنا ہے کہ بقول ان کے جھوٹے الزامات لگا کر اُنہیں حق بات کہنے اور مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
عمر شاہد حامد کا مزید کہنا تھا کہ خاتون پر یہ الزام ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ہدایت پر ٹارگٹ کلنگ ٹیموں کو رقوم بھیجنے کے علاوہ اُنہیں مبینہ طور پر ہدایات بھی دیتی رہی ہیں۔
حکام نے مزید بتایا کہ بعض گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کی موجودگی میں دیے گئے بیان میں اعتراف کیا کہ انہیں ٹارگٹ کلنگ اور دیگر وارداتوں کے لیے کہکشاں حیدر پیسے بھجواتی رہی ہیں۔
ملزمان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کہکشاں حیدر نے قتل کی واردات کرنے پر کل تین لاکھ روپے بھجوائے جن میں سے 1470 امریکی ڈالر حوالہ اور ہُنڈی کے ذریعے بھجوائے گئے۔ بینک اکاؤنٹس کی چھان بین کرنے سے معلوم ہوا کہ ایسی وارداتوں کے فوری بعد چند روز میں طے شدہ رقم اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جاتی تھی۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق کہکشاں حیدر ان وارداتوں کے لیے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے حکم پر مبینہ طور پر وٹس ایپ کال پر ہدایات جاری کرتی تھی جن میں سے ایک کال کی ریکارڈنگ بھی صحافیوں کو سنائی گئی۔
مذکورہ کال میں مبینہ طور پر کہکشاں حیدر ایک شخص کو قتل کرنے کی ہدایات دے رہی ہیں اور یہ بھی بتارہی ہیں کہ ہدف کے جسم کے کن حصوں کو نشانہ بنانا ہو گا۔ پولیس حکام کے مطابق یہ ریکارڈنگ چند ماہ ہی پرانی ہے۔
عمر شاہد حامد کے مطابق کہکشاں حیدر نے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' اور پاکستان مخالف سندھی اور بلوچ قوم پرست گروہوں کے ساتھ مل کر کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور سیاسی و مذہبی شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے مبینہ طور پر مزید ٹارگٹ کلرز گروپس تشکیل دیے ہیں۔
تاہم حکام نے ٹارگٹ کلنگ کی ان کارروائیوں کے مبینہ اہداف کے بارے میں نہیں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے نام ظاہر نہیں کیے جا رہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ان شخصیات کو نشانہ بنا کر کراچی میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانا اور شہر میں عدم استحکام کی فضا پیدا کرنا تھا۔
'ملزمہ کے خلاف کارروائی کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کریں گے'
ایک سوال کے جواب میں سی ٹی ڈی حکام کا کہنا تھا کہ یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے کہ ایک پاکستانی نژاد امریکی خاتون وہاں بیٹھ کر بقول ان کے مافیا کی طرح نیٹ ورک چلا رہی ہے اور پاکستان میں لوگوں کو قتل کرنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً ملزمہ کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کیے جائیں گے اور امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے یہ مسئلہ رکھا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کہکشاں حیدر کون ہیں؟
کہکشاں حیدر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی سرگرم کارکن ہیں جو امریکہ میں رہ کرسوشل میڈیا پر کافی متحرک اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کے بھائی کامران حیدر بھی ایم کیو ایم امریکہ کے جوائنٹ آرگنائزر رہ چکے ہیں۔ تاہم فوری طور پر ان کی جماعت یا امریکی حکومت کی جانب سے ان الزامات پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
کہکشاں حیدر سوشل میڈیا پر خاصی متحرک ہیں اور وہ مبینہ طور پر سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کے مطالبے کے علاوہ سیکیورٹی اداروں پر بھی کھل کر تنقید کرتی رہی ہیں۔
کیا ایم کیو ایم لندن اب بھی کراچی میں فعال ہے؟
دوسری جانب صوبۂ سندھ کے سابق گورنر اور تجزیہ کار ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل معین الدین حیدر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کا مسلح گروہ جس کا تعلق الطاف حسین سے تھا وہ اب کراچی میں کافی حد تک کمزور ہو چکا ہے۔
معین الدین حیدر کے بقول ایم کیو ایم لندن کی سیاسی طاقت کے ساتھ ساتھ مسلح طاقت بھی کمزور ہو چکی ہے لیکن اس وقت جو لوگ گرفتار ہو بھی رہے ہیں تو وہ بقول ان کے ماضی میں ایسی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔
معین الدین حیدر کے خیال میں پاکستان میں اب دہشت گردی کا زور کافی حد تک توڑ دیا گیا ہے، اور اس میں انسدادِ دہشت گردی پولیس کی کارکردگی کافی بہتر ہوئی ہے۔
اُن کے بقول دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والے پیسوں پر بھی اب کافی سخت چیک رکھا گیا ہے جس سے کافی فرق پڑا ہے۔ لیکن اب بھی ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو امن و امان کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔
ان کے مطابق بھارت بھی پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ ملک میں مکمل طور پر صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ضروری ہے۔
اُن کے بقول بھارت کو یہ باور کرانا ہو گا کہ تعلقات میں خرابی دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ لہذٰ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے بجائے دونوں ممالک کو غربت کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔