لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ کے مبینہ رہنما ذکی الرحمٰن لکھوی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت سمیت تین مقدمات میں مجموعی طور پر 15 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ تمام سزائیں ایک ساتھ شروع ہونے کی وجہ سے انہیں پانچ سال جیل میں گزارنے ہوں گے۔
ذکی الرحمٰن لکھوی کے خلاف کالعدم تنظیم کے لیے چندہ جمع کرنے اور دیگر الزمات پر انسدادِ دہشت گری ایکٹ کے تحت عدالت نمبر تین کے جج اعجاز احمد بٹر نے ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا۔
عدالت نے دستیاب شواہد اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران ملزم کی طرف سے نصیر الدین نیئر اور محمد عمران فضل گِل ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
ملزم کے وکلا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پہلے لشکرِ طیبہ رجسٹرڈ جماعت تھی, اُس وقت وہ کالعدم تنظیم نہیں تھی۔ لشکرِ طیبہ کو بعد ازاں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں نئی دفعات 11 بی اور 11 ای شامل کر کے کالعدم قرار دیا گیا۔
وکلا نے مزید بتایا کہ کسی کو ماضی سے قانون میں نئی دفعات شامل ہونے پر سزا نہیں دی جا سکتی۔
ذکی الرحمٰن لکھوی کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کا لشکرِ طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پراسیکوشن نے بھی اِس الزام کو عدالت میں ثابت نہیں کیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 10-اے کے تحت ہر ملزم کو صاف اور شفاف ٹرائل کا حق ہے۔ ملزم کا لشکرِ طیبہ سے تعلق ہونے کے خلاف پیش کی گئی دستاویزات غیر مصدقہ ہیں۔ لہذا نا کافی شواہد کی بنیاد پر ملزم کو مقدمہ سے بری کیا جائے۔
ذکی الرحمٰن لکھوی پر ڈسپنسری چلانے اور مبینہ طور پر غیر قانونی فنڈنگ کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ جن کے خلاف محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب نے سات دسمبر 2020 کو مقدمہ درج کیا تھا۔ جب کہ اِنہیں دو جنوری 2021 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر نمبر 26/2020 کے مطابق ضلع پاکپتن کے علاقے نور پور میں مدرسہ اہلِ حدیث ابوہریرہ ڈسپنسری قائم ہے, جسے انس محسن چلا رہے تھے۔ جب کہ مالی معاونت ذکی الرحمٰن لکھوی کرتے تھے۔
درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ڈسپنسری دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ذکی الرحمٰن لکھوی اور انس محسن پر اِس ڈسپنسری سے حاصل ہونے والی رقم کا ذاتی اور دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کا بھی الزام ہے۔
ملزم نے کیس کی سماعت کے دوران لگائے جانے والے الزامات کی صحت سے انکار کیا تھا۔ ملزم نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ پراسیکویشن کے تمام گواہ سرکاری ملازمین ہیں۔ جنہوں نے دباؤ کے تحت اُن کے خلاف گواہیاں دی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں اور قانون پر عمل کرنے والے شہری ہیں اور کبھی کسی مقدمے میں ملوث نہیں رہے۔ ان کا لشکرِ طیبہ یا کسی بھی کالعدم جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ کبھی رہا ہے۔
ان کے مطابق انہوں نے کبھی لشکرِ طیبہ کی کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی لشکرِ طیبہ کا رکن رہے ہیں۔ اور نہ ہی ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی ان اثاثے کبھی دہشت گردی کی معاونت میں استعمال ہوئے ہیں۔ انہوں نے کبھی دہشت گردوں کی مالی معاونت نہیں کی۔
ملزم ذکی الرحمٰن لکھوی نے عدالت میں دوران سماعت ضابطۂ فوجداری کی دفعات 342 کے تحت بیان قلم بند کراتے ہوئے کہا کہ فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے اُنہیں شواہد کا جائزہ لینے کے لیے صرف تین دن کا وقت دیا گیا۔ جب کہ قانون کے مطابق کسی بھی ملزم کو شواہد اور دستاویزات کو جائزہ لینے کے سات دن سے کم کا وقت نہیں دیا جا سکتا، جو کہ غیر قانونی ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران پراسیکوشن نے 12 گواہوں کو نامزد کیا تھا جن میں چھ گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور اُن پر جرح کی گئی۔
گواہوں میں سے ایک تفتیشی افسر منیر احمد کے مطابق ملزم کی پاکتپن میں 13 مرلے زمین پر ڈسپنسری قائم تھی۔ فردِ ملکیت کے مطابق مذکورہ ڈسپنسری کی زمین اہلِ حدیث کی زیرِ ملکیت تھی۔
عدالت میں ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل عبدالجبار ڈوگر کا کہنا تھا کہ ذکی الرحمٰن لکھوی کا تعلق کالعدم لشکر طیبہ سے ہے۔ ذکی الرحمٰن لکھوی کا نام 10 دسمبر 2008 سے کالعدم افراد کی فہرست میں شامل ہے۔
ان کے مطابق لشکرِ طیبہ کو کالعدم جماعت قرار دینے کے خلاف ریویو بورڈ میں کوئی نظرِ ثانی کی درخواست فائل نہیں کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے اعلامیے کے مطابق 10 دسمبر 2008 کو ان کا نام کالعدم افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ دستیاب شواہد کی بنیاد پر اِن کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور ڈسپنسری کی زمین کو سرکاری تحویل میں لیا جائے۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دونوں اطراف کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملزم نے ضلع پاکپتن میں قائم ابوہریرہ ڈسپنسری کا لشکرِ طیبہ کے زیرِ ملکیت ہونے سے متعلق انکار نہیں کیا۔ اِس الزام سے بھی انکار نہیں کیا کہ ابوہریرہ ڈسپنسری ملزم ذکی الرحمٰن لکھوی کے زیرِ استعمال نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے کالعدم افراد کی فہرست جاری کرنے کے اقدام کو بھی ملزم نے عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ حالاں کہ عدالت اِس پر نوٹس لے سکتی ہے۔ لیکن ملزم نے اُس فہرست کی کوئی مخالفت نہیں کی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ جائیداد دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ ابوہریرہ ڈسپنسری دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی۔ ڈسپنسری ملزم کے زیرِ انتظام رہی۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے مزید کہا کہ پراسیکوشن اِس بات کو ثابت نہیں کر سکی کہ ذکی الرحمٰن لکھوی کا تعلق کالعدم جماعت لشکرِ طیبہ سے ہے۔ لیکن ملزم کا نام اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں شامل ہے جس کا فائدہ سی آر پی سی 382 بی کے تحت ملزم کو دیا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والی ابوہریرہ ڈسپنسری کا تعلق ملزم سے ثابت ہوا ہے۔
عدالت نے ملزم ذکی الرحمٰن لکھوی کو 15 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے پاکپتن میں قائم 13 مرلے پر مشتمل ابوہریرہ ڈسپنسری کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعات الیون ایچ ٹو اور الیون این کے تحت پانچ سال سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا،الیون آئی ٹو اور الیون این کے تحت پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا۔ جبکہ الیون جے ٹو اور الیون این کے تحت پانچ سال سزا اور ایک لاکھ روپیہ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
قانون کے مطابق تین الگ مقدمات میں سنائی جانے والی پانچ پانچ سال کی سزا مجموعی طور پر 15 سال بنتی ہے۔ البتہ مقدمات الگ الگ ہونے کی وجہ سے مجرم کو قید میں پانچ سال گزارنے ہوں گے۔ کیوں کہ تینوں مقدمات کی سزائیں بیک وقت ہی شمار ہو رہی ہوتی ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ذکی الرحمٰن لکھوی کے شریک ملزم ابو انس محسن کو فوری گرفتار کرنے کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے ملزم کی سزا کے وارنٹ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو ارسال کر دیے ہیں۔
ذکی الرحمٰن لکھوی کی گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کا خواہاں ہے۔
خیال رہے کہ نومبر 2008 میں ممبئی حملہ کیس میں بھارت نے لشکرِ طیبہ کے دیگر رہنماؤں سمیت ذکی الرحمٰن لکھوی پر بھی حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ممبئی حملے میں 160 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے جس کے بعد ذکی الرحمٰن لکھوی کو حراست میں لیا گیا تھا جنہیں چھ سال بعد دسمبر 2014 میں رہائی ملی تھی۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ذکی الرحمٰن لکھوی کا نام دسمبر 2008 میں لشکرِ طیبہ اور القاعدہ سے تعلق کی بنیاد پر دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔