پاکستان کے صوبے سندھ کی پولیس نے حکومت مخالف احتجاج کے دوران راستے بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے 250 کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق تھانہ 'موچکو' کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) محمد وسیم نے تصدیق کی ہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکنوں نے جمعے کو اچانک مرکزی شاہراہیں بند کرا دیں۔ ان کارکنوں نے ضلع حب کے قریب بلوچستان اور سندھ کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کیا تھا۔ پولیس کے مطابق سڑک کی بندش سے متعدد گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں جس سے بھاری نقصان ہوا ہے۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر علامہ راشد محمود سومرو کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تاہم تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
SEE ALSO: مولانا فضل الرحمٰن کا پلان اے، بی، سی کیا ہے؟خیال رہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں 14 روز سے جاری دھرنا بدھ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں اہم شاہراہیں بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے مطابق یہ اس احتجاج کا پلان بی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ایف آئی آر سیکشن 147 یعنی ہنگامہ آرائی کرنے، سیکشن 148 جان لیوا ہتھیاروں سے لیس ہونے اور سیکشن 149 یعنی غیر قانونی طور پر جمع ہونے کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما قاری عثمان نے ان گرفتاریوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جو اس احتجاج کی حمایت کرتی رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
پولیس کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکنوں نے جمعے کی شب احتجاج ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ہفتے کی صبح تک احتجاج جاری رکھا گیا۔
ادھر پشاور ہائی کورٹ نے جمعیت علماء اسلام (ف) کو سڑکیں بند کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکم امتناعی پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے حکومت مخالف احتجاج کے دوسرے مرحلے کے تحت ملک بھر میں مختلف مقامات میں مرکزی شاہراہوں کو بند کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ جمعیت علماء اسلام کا آزادی مارچ 27 اکتوبر کو کراچی سے شروع ہو کر 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچا تھا۔ جہاں سیکٹر ایچ نائن گراؤنڈ میں 13 نومبر تک دھرنا دیا گیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ختم نہیں ہو جاتی وہ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اس ضمن میں انہوں نے پلان اے، بی اور سی کا اعلان کر رکھا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات پر قانونی چارہ جوئی
علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آزادی مارچ کے دوران اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کا جائزہ لے کر قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعے کو عمران خان کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد ایک بیان میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں نے دھرنے کا حصہ بن کر مفاد پرستی کا ثبوت دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر کا تفصیلی جائزہ لے کر تقاریر میں قانون کی خلاف ورزیوں کو سامنے لائے گی۔ خیال رہے کہ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران مختلف اپوزیشن رہنماؤں نے تقاریر کی تھیں جن میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔