|
لاہور پولیس نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کرنے کی دھمکی دینے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے نائب امیر اور پارٹی کے 1500 کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
مقدمے میں دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے، کارِ سرکار میں مداخلت، اعلٰی عدلیہ کو دھمکیاں دینے سمیت دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ لاہور کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کیا گیا ہے۔
مقدمہ ایس ایچ او قلعہ گجر سنگھ پولیس اسٹیشن حماد حسین کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پریس کلب لاہور کے باہر احتجاج سے پیر ظہیر الحسن نے اعلی عدلیہ کے خلاف نفرت پھیلائی۔
ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی امیر نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا قتل کرنے والے کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے مختلف مذہبی تنظیموں کی طرف سے دی گئی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے احمدی کمیونٹی کے فرد مبارک احمد ثانی کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
مختلف مذہبی تنظیموں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اجتجاج کا اعلان کیا تھا۔
مبارک احمد ثانی پر الزام تھا کہ وہ احمدی کمیونٹی کی جانب سے قرآن کی تفسیر 'تفسیرِ صغیر' کی اشاعت اور تقسیم میں ملوث تھے۔ اس حوالے سے چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مبارک احمد ثانی کو جنوری 2023 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ نظرِثانی اپیل کے بعد بھی بدھ کو عدالتِ عظمیٰ نے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
چیف جسٹس کے خلاف مہم
سپریم کورٹ کی جانب سے مبارک احمد ثانی کی رہائی کا فیصلہ برقرار رکھنے پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔
اتوار کو ٹی ایل پی نے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس میں چیف جسٹس کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر 26 سے 29 جولائی تک پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے۔
وفاقی حکومت کا ردِعمل
چیف جسٹس کو قتل کی دھمکیاں دینے پر وفاقی حکومت بھی حرکت میں آئی ہے۔
پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزرا خواجہ محمد آصف اور احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر عوام کو اُکسانے اور انتہا پسندانہ پوسٹس لگانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ریاست کسی صورت کسی کو قتل کرنے کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کے سربراہ ہیں اور اس ریاستی ستون کے سربراہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں تحریک لبیک پاکستان سے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک شخص کا فعل ہے۔ جماعت کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسری جانب جماعتِ احمدیہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں طویل عرصے سے احمدی کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جماعتِ احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کا کہنا تھا کہ اگر احمدیوں کے خلاف مہم چلانے والوں کو پہلے ہی روکا جاتا تو بات چیف جسٹس کو قتل کرنے کے فتوے جاری کرنے تک نہ پہنچتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کی مذمت کرتے ہیں۔ ریاست کو اس معاملے پر فوری ایکشن لینا چاہیے۔
احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں، تاہم آئینِ پاکستان اُنہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
احمدی کمیونٹی کے افراد کو گلہ رہتا ہے کہ پاکستان میں اُنہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے ہراساں کیا جاتا ہے۔