پاک افغان سرحد پر ہونے والی حالیہ جھڑپوں کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج کیا ہے جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور نےافغان پالیسی پر نظرِ ثانی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ سرحد پر ہونے والی جھڑپوں پر ماضی میں بظاہر تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن رواں ہفتے ہونے والی جھڑپوں کے بعد جمعے کو اسلام آباد میں تعینات افغان ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کرکے چمن -اسپن بولدک کراسنگ پر ہونے والے واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔پاکستان کے مطابق افغان سیکورٹی فورسز کی طرف سےاس کی حدود میں بلااشتعال گولہ باری کی گئی تھی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق اس موقعے پر افغان ناظم الامور کو باور کرایا گیا کہ شہریوں کا تحفظ دونوں ممالک کی ذمے داری ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے دونوں ممالک کے درمیان طریقۂ کار طے کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔
ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے دوران پاکستان کے صوبۂ بلوچستان اور افغان صوبے قندھار کو ملانے والی سرحد پر چمن اور اسپن بولدک کی سرحدی راہداری پر جھڑپوں کے دو واقعات پیش آچکے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والی جھڑپوں سے قبل گزشتہ اتوار کو اسی بارڈر کراسنگ پر ہونے والے گولہ باری کے نتیجے میں پاکستانی حکام کے مطابق آٹھ پاکستانی شہری اور ایک افغان سیکیورٹی اہلکار کی ہلاکت ہوئی تھی۔
دوسری جانب جمعرات کو سیینٹر فاروق حامد نائیک کی صدارت میں سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اسدمجید نے دیگر معاملات کے ساتھ دو دسمبر کو کابل میں پاکستانی ناظم الامور پر ہونے والے حملے کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔
سینیٹر فاروق نائیک نے سرحد پر فائرنگ کے تبادلے اور کابل میں پاکستانی سفارت کار پر ہونے والے حملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول، پاکستان دنیا میں افغانستان کی ترجمانی کررہا ہے جبکہ افغان حکومت اکثر پاکستان کی مخالفت کرتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
’نقصان دو طرفہ ہے‘
پاکستان کو اس وقت اپنی مغربی سرحد پر مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے جب کہ پاکستان میں خیال پایا جاتا تھا کہ کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستا ن اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں گے اور سرحد پر حالات پرامن ہو جائیں گے۔
اس بارے میں دفاعی امور کے تجزیہ کار سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ اور بعض دیگر امور کو ابھارا جارہا ہے۔ یہ صورتِ حال نہ پاکستان کے حق میں ہے اور نہ ہی افغانستا ن کے مفاد میں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تاثر ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور بعض امور پر افغانستان کی کئی عالمی فورمز پر حمایت کی ہے اور اب بھی پاکستان بین الاقوامی برادری پر زور دیے رہا ہے کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
ماضی میں بھی پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت کےالزامات عائد ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو سفارتی سطح پر نقصان بھی ہوا لیکن سید نذیر کہتے ہیں کہ سابق افغان حکومت کی طرح طالبان حکومت بھی سرحد پر پاکستان کی طرف باڑ نصب کرنے کے معاملےکو ایک مسئلہ بنار ہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے اس بارے میں تحفظات برقرار ہیں کہ افغان طالبان نے شدت پسند گروپ ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف سرگرمیاں محدود نہیں کی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر گولہ باری کے حالیہ واقعات سے کچھ عرصے قبل طالبان کی جانب سے سرحد پر نصب باڑ کاٹنے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ طالبان کے علاوہ ماضی میں بھی کابل کی حکومت دونوں ممالک کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحدتسلیم نہیں کرتی تھی۔برصغیر میں برطانوی حکومت کےد ور میں ہونے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں ڈیورنڈ لائن سے متعین کردہ حدود کو پاکستان باقاعدہ سرحد قرار دیتا ہے۔
SEE ALSO: افغان سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات: 'ملا عمر نے بھی ڈیورنڈ لائن پر صاف جواب دے دیا تھا'دونوں ممالک کے درمیان اگرچہ یہ تاریخی مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سےچلا آرہا ہے تاہم اس معاملہ پر دونوں ممالک کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ کیوں کہ طویل مدت تک پاکستان نے اس سرحد پر نقل و حمل مکمل روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا تھا۔
پاکستان نے 2017 میں سرحد کے آرپار دہشت گردی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لیےاس سرحد پر باڑ نصب کرنے کام شروع کیا تھا جو کافی حد تک مکمل ہوچکا ہے۔
’اب کابل میں سیاسی حکومت نہیں‘
افغان امور کے ماہر ا ور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ 2017 میں جب پاکستان نے باڑ لگانا شروع کی تو اس وقت کی افغان حکومت کی طرف سے اس پر سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا تھا کیوں کہ وہاں ایک سیاسی حکومت تھی۔ وہ اس مسئلے کو آگے نہیں لے جانا چاہتے تھے بصورت دیگر دونوں ممالک کے د رمیان لڑائی کا خطرہ پیدا ہوسکتا تھا۔ پاکستان نے باڑ نصب کرنے کا کام جاری رکھا لیکن اس وقت کی غنی حکومت کی طرف سے ایک آدھ بیان کے علاوہ خاموشی اخیتار کی جاتی رہی تھی۔
سمیع یوسف زئی کے مطابق اس وقت صورتِ حال نہایت مختلف ہے۔ نہ تو کابل میں کوئی سیاسی حکومت ہے اور نہ ہی طالبان کی سرحدی فورسز منظم اور تربیت یافتہ ہیں۔انہیں اس بات کا ادارک نہیں ہے کہ بارڈر فورس کے طور پر کسی ہنگامی صورتِ حال میں کیا ردِعمل ظاہرکرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے معاملے میں پاکستان کو احتیاط برتنی ہو گی۔ یہ کوئی روایتی سیاسی حکومت نہیں ہے۔ انہیں کسی بات کی پروا نہیں ہے کہ نفع کیا ہے اورنقصان کیا۔ اس لیے اگر پاکستان کی طرف سے بھی سخت ردِعمل آئے گا تو صورتِ حال خطرناک ہو سکتی ہے۔
سمیع یوسف زئی ںےمزید کہا کہ سرحد پار گولہ باری طالبان کریں یا پاکستان، نشانہ پشتون ہی بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سرحد پرعوام میں طالبان کی حمایت اور ہمدردی بری طرح متاثر ہورہی ہے کیوں کہ اس کا نشانہ عوام بن رہے ہیں۔
تجزیہ کار سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی افغان پالیسی کا جائزہ لے کر تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو افغانستان کے تناظر میں سیکیورٹی کے چیلنجز، باہمی تجارت اور بارڈر مینجمنٹ کے بارے میں ایک مؤثر پالیسی بنانا ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ طالبان کو بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ پاکستان سے متعلق اپنا رویہ تبدیل کریں کیوں کہ تعلقات میں کشیدگی سےدو طرفہ نقصان ہوگا۔
سید نذیر کہتے ہیں کہ پاکستان بین الاقوامی برداری پر افغانستان میں درپیش مشکلات میں معاون کردار ادا کرنے پر زور دیتا ہے۔ لیکن دوسری جانب اگر طالبان اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو ان کے لیے اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانامزید مشکل ہوجائے گا۔