پاکستان کے صوبہ سندھ میں پہلی ڈی آکسی رائیبو نیوکلک ایسڈ (ڈی این اے) فارنزک لیب کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ صوبے کی پہلی اور پاکستان کی دوسری بڑی فارنزک لیب ہے۔
اس سے قبل لاہور میں موجود پنجاب فارنزک ایجنسی ہی پاکستان کی واحد لیبارٹری تھی جہاں ڈی این اے فارنزک کی سہولت موجود تھی۔
سندھ میں قائم کی گئی یہ پہلی فارنزک لیب جامعہ کراچی کے جمیل الرحمٰن سینٹر فار جینومکس ریسرچ سینٹر میں قائم کی گئی ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ اس لیب کو رواں ماہ ہی فعال کر دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سمیت دیگر واقعات کے فارنزک ٹیسٹ کے لیے اس سے قبل نمونے پنجاب فارنزک ایجنسی بھجوائے جاتے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں ڈی این اے فارنزک لیبارٹری کے قیام سے صوبے میں ہونے والے جرائم بالخصوص دہشت گردی اور ریپ جیسے جرائم میں ملوث ملزمان کی شناخت میں بے حد مدد اور سہولت مل سکے گی۔
بین الاقوامی معیار کے عین مطابق تیار کردہ اس لیب کی تیاری میں حکومت سندھ کی جانب سے 22 کروڑ روپے جبکہ باقی رقم بین الاقوامی سینٹر برائے کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سینٹر کراچی سے منسلک اداروں کی جانب سے دی گئی ہے۔ اس رقم سے لیبارٹری کے لئے جدید ترین آلات خریدے گئے ہیں۔
تقریباً چھ ماہ کے قلیل عرصے میں قائم ہونے والی اس لیب میں حکام کے مطابق معمول میں بیک وقت 50 تجزیاتی ٹیسٹ کیے جا سکیں گے۔
ڈی این اے فارنزک لیب کیسے کام کرتی ہے؟
لیب کے انچارج ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مطابق اس ڈی این اے فارنزک لیب کے معیار کا دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی لیبارٹری سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
لیبارٹری کے قیام کا بنیادی مقصد کسی بھی جرم کے جائے وقوعہ پر موجود افراد کی نشاندہی کرنا ہے، جو تفتیشی ٹیموں کو جرم کے پیچھے چھپے کرداروں تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوگی۔
اشتیاق احمد کے مطابق، فارنزک لیب میں کرائم سین سے ملنے والے شواہد کا جائزہ لیا جاتا ہے اور جرم میں ملوث افراد کی شناخت کے لیے ڈی این اے پروفائلنگ کی جاتی ہے۔
لیب انچارج کے بقول، پروفائلنگ مکمل ہونے کے بعد جائے وقوعہ پر موجود افراد یا مشتبہ افراد کی بھی ڈی این اے پروفائلنگ کی جاتی ہے، جس کے بعد مشتبہ افراد کی پروفائلنگ کو شواہد کی پروفائل سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ اگر شواہد کی فائل مشتبہ افراد کی فائل سے میچ ہوجاتی ہے، تو پھر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فلاں مشتبہ شخص کرائم سین پر موجود تھا۔
لیب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد اور مشتبہ افراد کے ڈی این اے کے نمونے ایک ساتھ نہ مل جائیں اور ہر صورت میں دونوں کا شناختی عمل بالکل الگ تھلگ رہے اور یہ شواہد کسی بھی قسم کی آلودگی کا شکار نہ ہوں۔
ڈی این اے کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق، فارنزک سائنس کی ایک درجن سے زائد شاخوں میں سے ایک ڈی آکسی ریبو نیوکلک ایسڈ یا ڈی این اے ہے اور صوبے میں قائم کی گئی یہ فارنزک لیب ڈی این اے ہی کی بنیاد پر شواہد کو پرکھتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈی این اے ایک وراثتی مواد ہے اور یہ ایک طرح سے انسانی کوڈ بک ہے، جس کے اندر انسان کی ذات، نسل، رویے، اسے لاحق بیماریوں، ان کے علاج سے متعلق سمیت دیگر تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔
ماہرین ڈی این اے کو عام زبان میں انسانی زندگی سے متعلق تمام تر معلومات کا خزانہ کہتے ہیں۔ لیکن کسی واقعے کی تفتیش میں ڈی این اے تحقیقات میں قطعی اور حتمی حیثیت بالکل نہیں رکھتا۔
یہ ضرور ہے کہ ڈی این اے ایک ناقابل تردید اور انتہائی طاقتور ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اور تحقیقات کو آگے بڑھانے میں انتہائی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
جامعہ کراچی میں قائم بین الاقوامی سینٹر برائے کیمیائی اور حیاتیاتی سائنس کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ لیبارٹری صوبائی حکومت کے ایک منصوبے سندھ فرانزک اتھارٹی کا حصہ ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت پہلے مرحلے میں ڈی این اے لیبارٹری فوری طور قائم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لیبارٹری جرائم کو کنٹرول کرنے میں پولیس اور دیگر قانو نافذ کرنے والے اداروں کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوگی۔
تاہم، ان کے بقول، یہ لیب فی الوقت ابتدائی سیٹ اپ کے طور پر قائم کی گئی ہے اور مستقبل میں جرائم کی بڑھتی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے اس میں توسیع کرنا ہوگی۔
شواہد کو اکھٹا کر کے لیبارٹری تک پہنچانا کٹھن اور انتہائی اہم مرحلہ ہے: ماہرین
ڈاکٹر اقبال چوہدری کے مطابق ڈی این اے سیمپلز کو بڑی مہارت اور پیشہ وارانہ طریقے سے حاصل کر کے اسے لیبارٹری تک محفوظ طریقے سے پہنچانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ایسا نہ کرنے سے شواہد ضائع ہو جانے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔
ان کے بقول، ڈی این اے کے نموںوں کی لیبارٹری تک پہنچانے کی ذمہ داری کو ٹھیک طریقے سے نبھانے کے لیے پولیس افسران کی پیشہ وارانہ تربیت انتہائی اہم ہے۔
ڈاکٹر اقبال کا مزید کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے تفتیش سے تعلق رکھنے والے بعض افسران کی تربیت کی گئی ہے اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رہے گا، تاکہ پولیس جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔
ماہرین کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ معاشروں کو ان سے متعلق قوانین کو ہم آہنگ بنانا ضروری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی عدالتوں میں شواہد کے طور پر ڈی این اے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ملک میں رائج بہت سے قوانین اس ترقی سے ہم آہنگ ہو بھی چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نظام انصاف کی مدد کے لیے ان لیبارٹریز کی مستقل اپ گریڈیشن اور اس میں کام کرنے والوں کی تربیت کے علاوہ تحقیق کے معیار کو بلند رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
سال 2017 میں صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ سندھ فارنزک سائنس اتھارٹی ایکٹ کے مطابق، یہ ادارہ صوبے بھر میں فارنزک مٹیریل کے تجزیے اور اس پر اپنی رائے دینے کا مجاز ہوگا اور اس اتھارٹی کے تحت ہی صوبے بھر میں کام کرنے والی تمام فارنزک لیب بھی رجسٹرڈ ہوں گی۔
تاہم، قانون منظور ہونے کے باوجود صوبائی حکومت سندھ فارنزک اتھارٹی کا قیام اب تک عمل میں نہیں لاسکی ہے۔
صوبائی حکومت کے حکام کا کہنا ہے کہ اتھارٹی کے قیام کے لیے کراچی کے علاقے ضلع ملیر میں زمین الاٹ کی جا چکی ہے اور اس منصوبے پر جلد ہی کام شروع کیا جائے گا۔