کابل میں اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے تحت خواتین کو تمام حقوق حاصل ہوں گے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان نے ملک پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پیدا ہونے والی تشویش اور خوف و ہراس دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گروپ کا کوئی بھی شخص آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا؛ آپ کے دروازے پر دستک نہیں دے گا اور آپ سے پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ''گزشتہ 20 برسوں کے دوران ہزاروں فوجی ہمارے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سب کو معاف کر دیا ہے۔ ان سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے''۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ سمیت کئی یورپی ملک اپنی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان مترجموں اور دوسرے کارکنوں اور ان کےخاندانوں کو امیگریشن فراہم کر رہے ہیں، تاکہ وہ طالبان کے انتقام کا ہدف نہ بن سکیں، ترجمان نے اعلان کیا کہ غیرملکی قوتوں کے ساتھ کام کرنے والے تمام مترجم اور کانٹریکٹرز کو بھی معافی دے دی گئی ہے اور ان سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ''ہم 18ماہ سے امن مذاکرات کر رہے تھے۔ قطر میں ہماری ایک مضبوط ٹیم ہے۔ لیکن بعض جنگ کے خواہش مندوں نے ان مذاکرات کو نقصان پہنچایا''۔
Your browser doesn’t support HTML5
ذبیح اللہ مجاہد نےکہا کہ یہ ایک جنگ کی صورت حال ہے۔حکومت قائم ہونے کے بعد ہر چیز واضح ہو جائے گی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے چاہے وہ 20 برس پہلے کی بات ہو یا آج کی۔ لیکن اب حالات 20 سال پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکے ہیں۔
ہمسایہ ملکوں کے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشس کرتے ہوئے کہ دہشت گردی ان کے ملک تک پھیل سکتی ہے، ترجمان نے کہا کہ تمام سرحدیں ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ کوئی بھی ہتھیار باہر اسمگل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جنگ میں استعمال ہونے والے تمام ہتھیار اکھٹے کیے جا رہے ہیں اور انہیں رجسٹر کیا جائےگا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جب حکومت بن جائےگی تو پھر یہ طئے کیا جائےگا کہ کس قسم کے قانون کی ملک کو ضرورت ہے۔
SEE ALSO: افغان فورسز کو فراہم کردہ امریکی اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگنے کی اطلاعاتان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ ہمارا ملک منشیات سے پاک ملک ہو گا اور لوگوں کو منشیات کے متبادل فصلیں کاشت کرنے کی طرف راغب کیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ہم بین الاقوامی کمیونٹی کو یقین دلاتے ہیں کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
طالبان کی طرف سے افغان عوام اور بیرونی دنیا کو مطمئن کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو اور وہ انہیں ماضی کے طالبان سے ہٹ کر دیکھیں۔
تاہم، افغانستان کی پرانی نسل کو یاد ہے کہ طالبان نے سخت نظام نافذ کرکے خواتین کو گھروں میں مقید کر دیا تھا اور ان پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔
اس سے قبل طالبان کے کلچرل کمشن کے ایک رکن، انعام اللہ سمنگانی نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی اسلامی امارات مکمل نیک نیتی کے ساتھ مکمل عام معافی کا اعلان کرتی ہے،خاص طور پران لوگوں کے لیے جو ہماری مخالفت کرتے رہے ہیں یا جنہوں نے برسوں تک اور حالیہ عرصے میں قابض فورسز کی مدد کی۔
کئی دوسرے طالبان رہنماؤں نے بھی یہ کہا ہے کہ وہ ان لوگوں سے انتقام نہیں لیں گے جنہوں نے افغان حکومت یا غیر ملکیوں کے لیے کام کیا تھا۔
اقوام متحدہ کا ردعمل
طالبان کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حقیقت میں کیا ہوتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ انہوں نے جو وعدے کیے ہیں کہ درحقیقت وہ ان پر کتنا عمل کرتے ہیں۔
دوسری طرف فرانس کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ فرانس کو کابل میں اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھنی ہے یا نہیں۔ اس وقت ہمارے لیے سب سے اہم وہاں سے اپنے شہریوں اور ان افغان باشندوں کو بحفاظت نکالنا ہے جو ہمارے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
لیکن کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ طالبان جنگجو ان افراد کی فہرستیں بنا رہے ہیں جنہوں نے حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
ایک خاتون براڈکاسٹر نے اپنا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ایک رشتے دار کے گھر میں چھپی ہوئی ہیں اور وہ ان اطلاعات کے بعد اپنے کام اور گھر جانے سے خوف زدہ ہیں کہ عسکریت پسند صحافیوں کو بھی تلاش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور دوسری خواتین یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ طالبان نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا ہے۔