طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان کی صورتِ حال کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی نہایت محتاط انداز میں دیکھ رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں پاکستان نے نہ صرف طالبان کی کھل کر حمایت کی تھی بلکہ حکومت سازی میں بھی طالبان کو پاکستان کی مشاورت اور حمایت حاصل رہی تھی۔
پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ پہلا ملک تھا جس نے 1996 میں کابل میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
البتہ طالبان کی جانب سے کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد تاحال پاکستان کی جانب سے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بتایا کہ پاکستان ممکنہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ دوست ممالک کے ساتھ مشاورت سے کرنا چاہتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بغیر کسی خون خرابے کے تبدیلی پر پاکستان کو خوشی ہے۔ تاہم پاکستان افغانستان میں مختلف گروہوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے بلکہ وہ صرف اسی حکومت کو تسلیم کرے گا جو افغان عوام کی اُمنگوں کی ترجمان ہو گی۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی ایک مختلف دور تھا اس وقت دنیا اور خطے کی سیاست مختلف تھی۔
لیکن زاہد حسین کا کہنا ہے کہ آج کی صورتِ حال مختلف ہے، لہذٰا پاکستان کے لیے فوری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی میں طالبان کا تاثر بھی بین الاقوامی سطح پر ایسا نہیں تھا جیسا کہ اب ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان نے افغانستان کا کنٹرول تو سنبھال لیا ہے لیکن بین الاقوامی برداری کو طالبان کی ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے اب بھی تحفظات ہیں جن میں خواتین اور اقلیتوں کی حقوق کے معاملات بھی شامل ہیں۔
لیکن افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کے طالبان اور ان کی پالیسیوں سے متعلق تحفظات کی وجہ سے پاکستان کا طالبان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔
اُن کے بقول پاکستان متوازن پالیسی رکھنا چاہتا ہے جس میں وہ طالبان کے ساتھ ایسے روابط رکھے جس پر عالمی برادری کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔
افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد جو بیان سامنے آیا ہے اس میں انسانی حقوق اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے احترام کی بات کی گئی ہے لیکن ان کے بقول اس میں جمہوریت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی پالیسیاں شاید ماضی سے مختلف ہوں گی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک افغان عوام میں خوف کی فضا موجود ہے جب کہ دوسری جانب دنیا اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کیا طالبان اسلامی امارات قائم کرنا چاہتے ہیں یا قابلِ قبول جامع حکومت کی بات کرتے ہیں۔
اُن کے بقول اسی بنیاد پر عالمی دنیا طالبان کو تسلیم کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے گی اور پاکستان بھی باقی دنیا کو دیکھ کر فیصلہ کرے گا۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ طالبان پاکستان کی ہر بات مانتے ہیں۔ اُن کے بقول بلاشبہ پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ ہے، لیکن ماضی میں کئی معاملات پر پاکستان اور طالبان کے اختلافات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
البتہ زاہد حسین کے بقول اسلام آباد اور کابل کے تعلقات اشرف غنی حکومت کے مقابلے میں بہت بہتر ہوں گے۔
تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ اب طالبان پاکستان کی نسبت روس، چین اور ایران کے زیادہ قریب ہیں اور پاکستان اور طالبان کے درمیان ماضی میں بعض امور پر اختلافات بھی رہے ہیں۔
طاہر خان کے لیے موجودہ صورتِ حال میں غیر پشتون وفد کی پاکستان میں موجودگی حیرانگی کا باعث ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس موقع پر افغان وفد کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینا حیران کن ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس سے طالبان کو منفی پیغام گیا ہو۔
خیال رہے کہ تاجک اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی افغان رہنما اتوار کو خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچے تھے۔
ان رہنماؤں میں افغان پارلیمنٹ کے اسپیکر میر رحمان رحمانی تاجک رہنما اور سابق وزیرِ داخلہ یونس قانونی، شمالی اتحاد کے اہم کمانڈر احمد شاہ مسعود کے دو بھائی، سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے صاحبزادے صلاح الدین ربانی بھی شامل ہیں۔
زاہد حسین کے بقول پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ طالبان غیر پشتون دھڑوں سے بات چیت کریں تاکہ افغانستان میں جو بھی حکومت بنے اس میں تمام افغان دھڑوں کو نمائندگی حاصل ہو۔
پاکستان کے دورے پر موجود افغان وفد میں کون کون شامل ہے؟
کابل میں ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے خاتمے پر طالبان کے صدارتی محل میں داخل ہونے کے فوری بعد غیر اعلانیہ طور پر افغانستان سے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے افغان سیاسی عمل کا حصہ بننے والے متعدد افغان رہنما اسلام آباد پہنچے تھے۔
اسلام آباد پہنچنے والے اس افغان وفد میں زیادہ تر وہ افغان رہنما شامل ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں میں افغانستان میں سرگرم رہے ہیں اور ان میں سے کئی نومبر 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اعلیٰ سرکاری اور سیاسی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
میر رحمان رحمانی
وفد کی قیادت افغانستان کے اولسی جرگہ کے اسپیکر میر رحمان رحمانی کررہے ہیں۔ وہ پہلی بار 2010 جرگہ میں شمالی افغانستان سے ممبر اولسی جرگہ (قومی جرگہ) کے ممبر منتخب ہوئےتھے۔ وہ 2019 میں اولسی جرگہ کے اسپیکر منتخب ہوئے تھے۔
یونس قانونی
وفد میں دیگر لوگوں کے علاوہ یونس قانونی اس لحاظ سے سرِفہرست ہیں کیونکہ اُنہیں احمد شاہ مسعود کا سیاسی وارث سمجھا جاتا ہے۔
پنج شیر سے تعلق رکھنے والے قانونی نومبر 2001 میں طالبان حکومت کے بعد شروع سے ہی سیاسی عمل کا اہم حصہ رہے تھے۔
وہ نومبر 2001 سے اکتوبر 2004 تک حامد کرزئی حکومت میں وزیرِ داخلہ، وزیرِ تعلیم اور نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔
اُنہوں نے 2004 کے صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی کے خلاف حصہ بھی لیا تھا، تاہم 2009 میں انہوں نے حامد کرزئی کے پینل میں شامل ہو کر نائب صدارت کے عہدے پر انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ 2013 اور 2019 میں انہوں نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی حمایت کی تھی۔
اُستاد کریم خلیلی
اُستاد کریم خلیلی حزبِ وحدت اسلامی افغانستان کے سربراہ ہیں۔ وہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والے سیاسی عمل میں اہم فریق رہے ہیں۔ وہ نہ صرف سابق صدر حامد کزئی کی کابینہ بلکہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ حزبِ وحدت بھی شمالی اتحاد کا اہم جزو رہا ہے۔ وہ امن کونسل کے سربراہ اور ممبر بھی رہے ہیں۔
اُستاذ محمد محقق
شمالی افغانستان کے مرکزی شہر مزار شریف کی شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اُستاذ محمد محقق بھی حزبِ وحدت کے ایک اور دھڑے کے سربراہ ہیں۔ اُن کا شمار افغان جنگجو سردار جنرل رشید دوستم کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے اور وہ بھی 2001 سے لے کر مختلف اوقات میں افغانستان میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
صلاح الدین ربانی
اسلام آباد پہنچنے والے وفد میں سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے بیٹے صلاح الدین ربانی بھی شامل ہیں۔ صلاح الدین ربانی کچھ عرصے کے لیے حامد کرزئی اور بعد میں ڈاکٹر اشرف غنی کی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہے تھے۔
احمد ضیا مسعود اور احمد ولی مسعود
کابل سے اسلام آباد پہنچنے والے افغان رہنماؤں میں احمد ضیا مسعود اور احمد ولی مسعود بھی شامل ہیں۔ دونوں احمد شاہ مسعود کے بھائی ہیں۔ احمد ضیا مسعود نائب صدر کے عہدے کے علاوہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
عبدالطیف پدرم
اس وفد میں عبدالطیف پدرم بھی شامل ہیں جو افغانستان میں روس نواز سابق افغان وزیرِ اعظم ببرک کارمل اور سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ 2014 کے صدارتی انتخابات میں اُنہوں نے ڈاکٹر اشرف غنی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم بعد میں ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ اختلافات کے باعث وہ شمالی اتحاد میں شامل ہو گئے تھے۔