|
اسلام آباد -- پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 16 برس بعد پولیو کیس رپورٹ ہونے کے بعد ملک سے اس وائرس کے خاتمے کی کوششوں کو دھچکہ لگا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس مجموعی طور پر یہ 17 واں کیس رپورٹ ہوا ہے جس سے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یوں تو افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے دُوردراز علاقوں میں پولیو کیس رپورٹ ہوتے تھے۔ تاہم اسلام آباد سے اس کیس کے سامنے آنے کو ماہرین تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔
قومی ادارۂ صحت کے مطابق اسلام آباد کی یونین کونسل نمبر چار سے ایک بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں جون سے ہی ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی جا رہی تھی۔
یہ کیس ایسے وقت میں رپورٹ ہوا ہے جب نو ستمبر سے ملک کے 115 اضلاع میں تین کروڑ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطریں پلانے کی مہم شروع ہوئی ہے۔
دوسری جانب عالمی ادارۂ صحت نے بھی 2023 کی دوسری ششماہی کے بعد سے پاکستان میں پولیو کیسز بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی وہ دو ممالک ہیں جہاں سے پولیو وائرس کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔
گزشتہ ماہ جنیوا میں ڈبلیو ایچ او کے اجلاس کے اختتام پر جاری رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں کوئٹہ اور گردونواح کے اضلاع، خیبرپختونخوا میں پشاور سمیت جنوبی اضلاع اور صوبہ سندھ میں کراچی و ملحقہ اضلاع میں پولیو کی وبائی صورت اختیار کرنے کا خطرہ موجود ہے۔
ملک میں پولیو کی موجودہ صورتِ حال دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کمیٹی کے مطابق بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کی بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے راستے پاکستان سے واپسی کے باعث یہ وائرس افغانستان اور وہاں سے دیگر ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے۔
کیا 'پولیو فری پاکستان' کا خواب پورا ہو سکے گا؟
سن 1994 میں اس وقت پاکستان کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اپنی بیٹی آصفہ کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا کر پاکستان میں انسدادِ پولیو مہم کا آغاز کیا تو پاکستان کا مشن اس وائرس سے جلد چھٹکارا پا کر 'پولیو فری پاکستان' کی منزل تک پہنچنا تھا۔
ایک وزیر اعظم کا اپنی بیٹی کو پولیو کے قطرے پلانا یہ پیغام بھی تھا کہ یہ ایک محفوظ ویکسین ہے جسے سبھی اپنے بچوں کو پلا سکتے ہیں۔
لیکن 30 برس گزرنے کے باوجود بھی پاکستان پولیو وائرس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پایا۔
کوئی ایسا سال نہیں گزرتا جس میں پولیو کا کیس رپورٹ نہ ہوا ہو یا ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی نہ پائی گئی ہو۔
پولیو کے قطرے لازمی پلانے کا قانون کیوں نہیں بن سکا؟
ایسے حالات میں یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ آخر وزیر اعظم سے لے کر پولیو پروگرام کے ہر فرد کی کاوشیں کم کیوں پڑ رہی ہیں؟
اسی سال یعنی 2024 کی بات کریں تو اب تک ملک کے 13 اضلاع سے 17 پولیو کیسز سامنے آ چکے ہیں اس کے علاوہ 64 اضلاع کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔
اب تک لگ بھگ 200 پولیو ورکرز اور سیکیورٹی اہلکار بھی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں جن میں تقریباً 70 خواتین بھی شامل ہیں۔
انسداد پولیو پروگرام کے کوآرڈینیٹر انوار الحق کہتے ہیں کہ ایسا کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے جس کا سہارا لیتے ہوئے بچوں کو ان کے والدین کی رضا مندی کے بغیر یا زبردستی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ڈونر جو انسدادِ پولیو پروگرام کو مدد فراہم کرتے ہیں وہ بھی زبردستی پولیو کے قطرے پلانے پر یقین نہیں رکھتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا پاکستان میں پولیو مہم مؤثر ثابت نہیں ہو رہی؟
حال ہی میں بلوچستان کے محکمۂ صحت نے صوبے میں پولیو ویکسی نیشن میں جعلسازی کا انکشاف کیا تھا۔
مقامی میڈیا کی مختلف رپورٹس کے مطابق پولیو ویکسین بچوں کو پلانے سے انکاری والدین اور پولیو ٹیموں کی مبینہ ملی بھگت سامنے آنے پر 500 سے زائد انسداد پولیو ورکرز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر بتاتے ہیں کہ بچوں کو قطرے پلائے بغیر انگلی پر نشان لگا کر ریکارڈ میں اندراج کر دینا اور پھر جو والدین قطرے نہیں پلاتے انہیں "ناٹ اویلیبل" یعنی گھر میں موجود نہ ہونے کی کیٹیگری میں رکھ دیا جاتا ہے۔
انوار الحق کا کہنا تھا کہ اسی لیے اب کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ایک گھر سے انکار یا ناٹ اویلیبل کی نشاندہی ہو تو وہاں متبادل ٹیمیں بھیج کر چیک کیا جائے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ ملک سے پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی ایک وجہ پولیو کی مؤثر مہم کا نہ ہونا بھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ اور چمن میں حالات ناسازگار رہے اس کے ساتھ پچھلے ایک سال سے مقامی مظاہروں اور امن و امان کی صورتِ حال کی وجہ سے بلوچستان کے دیگر اضلاع میں انسدادِ پولیو مہمات مکمل طور پر نہیں ہو سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پولیو مہم میں رکاوٹیں بچوں کی قوتِ مدافعت کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پولیو وائرس دیگر اضلاع میں مسلسل پایا جا رہا ہے۔
جدت اور سہولیات سے محروم پولیو پروگرام اور ورکرز
پاکستان میں آج کے جدید دور میں بھی پولیو ورکرز قطرے پلا کر اندراج کاغذ کی شیٹس پر کرتے ہیں۔
اس کا اعتراف بھی پولیو پروگرام کے کوآرڈینیٹر نے کیا ہے کہ اعدادوشمار کو کاغذ کے بجائے ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ایک مسئلہ پولیو ورکرز کی تنخواہوں کا بھی ہے۔ ملک میں تقریباً چار لاکھ پولیو ورکرز ہیں۔ عالمی ادارہ صحت پہلے ہی پولیو کے حوالے سے مدد فراہم کر رہا ہے ان کو کیسے تنخواہیں بڑھانے کا کہا جائے؟
'آئندہ تین برس تک پاکستان کا پولیو سے پاک ہونا ممکن نہیں'
عالمی ادارہ صحت کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو پاکستان میں پولیو کا اب تک خاتمہ نہ ہونے کی متعدد وجوہات بتاتی ہے۔
ان وجوہات میں غربت، ناخواندگی اور ان سے جڑے سماجی رویے، پولیو ویکسین کے بارے میں معلومات کی کمی، ویکسین سے متعلق بے بنیاد مفروضوں اور افواہوں کا پھیلاؤ شامل ہیں۔ جب کہ امن و امان، موسم اور دشوار گزار علاقوں تک رسائی کے معاملات بھی مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام انسدادِ پولیو کے لیے دنیا بھر میں جاری اقدامات نے 2023 میں پاکستان سے پولیو کے نئے کیس ختم کرنے کا ہدف طے کیا تھا۔ تاہم اب اس ادارے کے نگران بورڈ کا کہنا ہے کہ کم از کم آئندہ تین برس تک پاکستان کا پولیو سے پاک ہونا ممکن نہیں ہے۔
کیا غیر محفوظ سرحد بھی ایک وجہ ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے اور اکثر یہ بات زیر بحث بھی رہتی ہے کہ افغانستان میں موجود پولیو وائرس پاکستان سے بھی وائرس کے ختم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے؟
پاکستان میں جن علاقوں سے نئے پولیو کیسز سامنے آئے ہیں ان میں سے اکثر علاقے افغانستان سے قریب ہیں۔
انسدادِ پولیو پروگرام کے مطابق 14 مارچ سے دو اگست تک سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تحقیقات جب قومی ادارہ صحت میں قائم انسدادِ پولیو لیبارٹری میں ہوئی تو وائرس کا تعلق سرحد پار کے وائرس کلسٹر وائے بی تھری اے سے ہی نکلا۔
یہ وائرس کلسٹر 2021 میں پاکستان سے چلا گیا تھا تاہم افغانستان میں موجود تھا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بظاہر گزشتہ سال یہ پولیو وائرس سرحد پار سے ہی واپس پاکستان میں آیا۔
بلوچستان میں پولیو کیسز پر تشویش
عائشہ رضا فاروق کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے کیسز کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔ لیکن گزشتہ سال سے پولیو مہمات میں خلل کے پیشِ نظر یہ غیر متوقع نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیو وائرس کا پھیلاؤ دکھا رہا ہے کہ ماضی میں ہم سے انسدادِ پولیو مہمات میں کہاں کہاں کمی رہ گئی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بلوچستان میں گزشتہ سال سے پولیو مہمات کے مکمل اور موثر انعقاد میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ بدقسمتی سے معصوم بچے ماضی میں پولیو ویکسین سے محروم رہ جانے کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
'کلرفل پکچر، پریزنٹیشن اور اجلاسوں سے پولیو ختم نہیں ہوتا'
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انسدادِ پولیو پروگرام کے ایک سابق ورکر نے بتایا کہ لیڈرشپ کی بار بار تبدیلی سے حکمتِ عملی اور پالیسیاں دوبارہ تشکیل دینی پڑتی ہیں۔
اُن کے بقول یوں سمجھیں کہ صفر سے دوبارہ شروع کرنا پڑتا ہے جس سے پولیو پروگرام کو نقصان ہوتا ہے۔ دوسرا سیاسی اثرورسوخ بھی پروگرام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں کلر فل پکچر اور پریزنٹیشن دکھانے سے ملک سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ گراونڈ کے حقائق بہت مختلف ہوتے ہیں، اگر ٹھیک کام ہو رہا ہو تو افغانستان سے وائرس پاکستان ہی کیوں آئے؟
پولیو کے خطرے سے متاثرہ علاقے
بلوچستان جہاں گزشتہ دو سال سے کوئی پولیو کیس سامنے نہیں ایا تھا ایک دفعہ پھر خطرے سے دوچار ہو گیا ہے جہاں سے رواں برس اب تک ایک تک 12 پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ڈیرہ بگٹی، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، جھل مگسی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، خاران سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہو چکا ہے۔
سندھ میں شکار پور سے ایک، کراچی کیماڑی سے ایک، حیدر اباد سے ایک اور پنجاب میں چکوال سے ایک دپائی کے بعد ایک کیس سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ تین برس میں بنجاب سے پولیو وائرس سے کوئی بھی بچہ متاثر نہیں ہوا تھا۔
اسلام آباد میں تقریباً 16 سال بعد کیس سامنے ایا ہے۔ ابھی تک خیبر پختونخوا سے کوئی بھی کیس نہیں آیا جہاں سے پچھلے سال چار کیس آئے تھے۔
انسداد پولیو پروگرام 40 یونین کونسلز کو وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے انتہائی رسک قرار دے چکا ہے جن میں پشاور کی 18، کراچی کی آٹھ، قلعہ عبداللہ کی پانچ، پشین کی تین اور کوئٹہ کی چھ یونین کونسلز شامل ہیں۔