برسلز میں پیر کے روز پیرس دہشت گرد حملوں کے سرکردہ ملزم، صلاح عبدالسلام کے خلاف مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔ ہمسایہ ملک بیلجئیم کے دارالحکومت برسلز کی عدالت میں پیشی کے دوران، توقع کی جارہی تھی کہ ملزم فرانس کی تاریخ کے مہلک ترین حملے کے حقائق کا انکشاف کرے گا، جہاں کا کمرہٴ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
سماعت کے دوران، 28 برس کا عبدالسلام زیادہ تر خاموش رہا، جس نے وائٹ پولو قمیض پہن رکھی تھی، اور اُن کی داڑھی اور بال بڑھے ہوئے تھے۔ جب مرکزی کمرہٴ عدالت میں جج نے اُن سے سوال کیا، تو وہ بیٹھا ہی رہا اور سوالوں کے جواب دینے سے انکار کیا۔
بعدازاں، عبدالسلام نے ذرائع ابلاغ پر الزام لگایا کہ مقدمے سے پہلے ہی اُن کی نامناسب مذمت کی جا رہی ہے، اور دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کے خلاف انصاف کا ناشائستہ اور بے رحمانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔
موجود صحافیوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے کلمات میں اُنھوں نے کہا کہ ’’میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں‘‘۔
اس ہفتے ہونے والی سماعت کے دوران نومبر 2015ء میں پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا براہِ راست مقدمہ نہیں چلایا جائے گا، جن حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے۔ بلکہ یہ مقدمہ اِن حملوں کے کئی ماہ بعد بیلجئیم پولس کے ساتھ شوٹنگ کے علیحدہ واقعے سے تعلق رکھتا ہے۔ قتل عمد کے اس مقدمے میں عبدالسلام اور اُن کا ساتھی ملزم، صفیان ملوث بتائے جاتے ہیں۔ الزام ثابت ہونے پر اُنھیں 40 برس قید کی سزا ہوسکتی ہے، حالانکہ استغاثہ نے 20 برس سزا کی استدعا کی ہے۔
وسیع دہشت گرد نیٹ ورک
بیلجئیم کے ماہر جرمیات، مائیکل دینتے نے عبدالسلام کو پیرس حملوں اور مارچ 2016ء میں برسلز میں ہونے والے بم حملوں کے حوالے سے ممکنہ معلومات کا خزانہ قرار دیا ہے۔
پیر کے روز فرانسسی ریڈیو کو دیے گئے انٹرویو میں، دینتے نے بتایا کہ عبدالسلام کا انداز ’’دفاعی حکمت عملی کا نہیں بلکہ پروپیگنڈا کے عمل میں ملوث ہونے کا ہے۔ صلاح عبدالسلام رائے عامہ پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں، ساتھ ہی وہ قدامت پسند خیالات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔