"پہلے میں شکار پر جاتی تھی تو اپنا اور اپنے معذور بیٹے کا پیٹ بھر لیتی تھی لیکن اب بیماری کی وجہ سے کوئی بھی مزدوری کرنے سے قاصر ہوں۔ گاؤں کی باقی عورتیں جب شکار سے لوٹتی ہیں تو مجھے بھی تھوڑا بہت دے دیتی ہیں جس سے میرا گزارہ ہوتا ہے۔"
یہ کہنا ہے 45 سالہ حاجانی ڈانڈل کا جو صوبہ سندھ کے ضلع سجاول کے گوٹھ کڑھ ملک کی رہائشی ہیں۔ 22 سال تک ماہی گیری کے بعد اب حاجانی کو ہیپاٹائٹس نے کمزور کر دیا ہےجس کے سبب وہ اب شکار پر نہیں جا پاتیں لیکن جھیل کے کنارے بیٹھ کر وہ دیگر خواتین کا انتظار کرتی ہیں۔
ضلع سجاول کی تحصیل جاتی کی ساحلی پٹی پر آباد کئی گوٹھ ماہی گیروں سے آباد ہیں اور ان گوٹھوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں لگ بھگ ایک سو سے زائد خواتین ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں جو عموماً دوسرے ساحلی علاقوں میں دکھائی نہیں دیتا۔
ان خواتین کا اس پیشے سے وابستہ ہونے کی وجہ مئی 1999 میں آنے والا وہ خوفناک سمندری طوفان زیرو ٹو اے (02-A) تھا جس نے ان کی ہنستی بستی زندگیوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
بھارتی گجرات سے آنے والا یہ طوفان ٹھٹھہ، بدین، سجاول کے ساحلی علاقوں سے جب ٹکرایا تو اس علاقے میں بسنے والے ہزاروں خاندانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ ایک اندازے کے مطابق اس طوفان سے تقریباً چھ لاکھ افراد متاثر ہوئے، 600 سے زائد کشتیاں تباہ اور 191 ماہی گیر ہلاک ہوئے۔
حاجانی کا اکلوتا معذور بیٹا اُس وقت پانچ برس کا تھا جب ان کے شوہر طوفان کی نذر ہوگئے تھے۔ ان کے گاؤں کڑھ ملک گوٹھ میں رہنے والی 80 فی صد عورتیں ان ہی ماہی گیروں کی بیویاں یا مائیں ہیں جو اس طوفان میں ہلاک ہو گئے تھے۔ طوفان تھمنے کے بعد بہت سے ماہی گیروں کی لاشیں مل گئیں، لیکن درجنوں اب بھی لاپتا ہیں۔
گوٹھ کڑھ ملک میں رہنے والی تقریباً 80 فی صد خواتین انہی ماہی گیروں کی بیویاں اور قریبی رشتے دار ہیں جو اس خوفناک طوفان کی نذر ہو گئے تھے۔
اس سانحے کے بعد طوفان میں بچ جانے والی عورتوں نے وہ ذمہ داری سنبھالی جو کبھی ان کے مرد ادا کر رہے تھے۔
ماہی گیر عورتوں کی کہانیاں دکھ سے بھری پڑی ہیں
بچائی عزیز روزانہ اپنے گوٹھ سے ایک کلو میٹر دور کاجھری واری کوری (جھیل کا نام) پر شکار کے لیے جاتی ہیں۔
ان کے بقول، "میری شادی کو چار برس ہوئے تھے جب میرا شوہر شکار پر گیا تب میری بیٹی دو سال کی تھی اور میں چھ ماہ کی حاملہ تھی۔ ایک دو دن کے اندر ہی موسم بدل گیا۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں ایسا لگا جیسے سب روئی کی طرح اڑ جائے گا۔ جب طوفان تھما تو نہ گھر بچا نہ ہی مال اسباب۔ کچھ دن کے بعد نیوی کے اہلکار میرے شوہر کی لاش تلاش کر کے لے آئے۔ تب سے اب تک میں کام کر رہی ہوں۔"
بچائی نے بتایا کہ شوہر کی موت کے بعد دو بیٹیوں کو پالنا ان کے لیے مشکل تھا، ان کے پاس نہ کشتی تھی نہ ہی اتنے پیسے کہ وہ کوئی بہتر شکاری جال خرید سکتی۔
بچائی کے بقول، "میں نے کبھی شکارنہیں کیا تھا لیکن جب کرنا شروع کیا تو اتنا شکار نہیں کر پاتی تھی کہ دو وقت کی روٹی اپنی بیٹیوں کو کھلا سکوں۔ مجبوراً مجھے اپنی ایک بیٹی رشتے داروں کو گود دینی پڑی کہ وہ کم از کم پیٹ بھر کر تو کھا سکے گی۔"
'سمندری جھاڑیاں پاؤں زخمی کرتی ہیں'
پیسنٹھ سالہ اوڈی ڈانڈال اپنے پانچ پوتوں کو پال رہی ہیں اور روزانہ شکار پر جاتی ہیں۔ ان کا بیٹا سلیمان بھی 1999 کے طوفان میں ہلاک ہوا تھا۔
اوڈی اپنے پوتوں کی واحد کفیل ہیں جو رات گئے شکار کے لیے جھیل میں اترتی ہیں تاکہ جال ڈال سکیں۔
اوڈی کا کہنا تھا کہ " میں روزانہ صبح سورج نکلتے ہی یا رات گئے شکار کے لیے جھیل میں اترتی ہوں تاکہ جال ڈال سکوں۔ پہلے یہ میٹھے پانی کی جھیل تھی تو یہاں کنارے پر سمندری جھاڑیاں تھیں اب وہ کھارے پانی کے باعث ختم ہوگئی ہیں۔"
اُن کے بقول سمندری جھاڑیوں کی باقیات اب بھی جھیل کے اندر ہی ہیں جو پاؤں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہیں اور پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے زخموں کو دیکھنے لگے تو پھر شکار کیسے کریں گے کمانا تو ہے۔
سنہری عیسی اس گوٹھ کی وہ خوش قسمت عورت ہیں جن کے شوہر اس طوفان میں سلامت رہے لیکن بڑے کنبے کی کفالت کے لیے وہ بھی اپنے شکار میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "میری چار بڑی بیٹیاں اور تین بیٹے چھوٹے ہیں جب وہ بڑے ہوں گے تو باپ کا ہاتھ بٹا سکیں گے۔ ایک بیٹی کی شادی کی ہے دوسری کی تیاری کر رہی ہوں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں موسم سرد ہو یا گرم ہم نے ہر صورت پانی میں اترنا ہی ہے۔"
اُن کے بقول کبھی کبھار گہرے پانی میں گردن تک اترنا پڑتا ہے تو ہی اچھا شکار جال میں آتا ہے۔ جب سردی کا موسم ہو تو ٹھنڈے پانی میں اترنا اور ہوا کا چلنا ہمارے سینے کو جکڑ کر رکھ دیتا ہے۔ کھانسی، نزلہ، سینے میں درد ان سب کے باوجود ہم بلا ناغہ شکار پر جاتے ہیں۔
سنہری کے مطابق کئی کئی گھنٹے کے انتظار کے بعد ان کے ہاتھ کبھی پانچ کلو تو کبھی ڈھائی کلو بڑی مچھلی آجاتی ہے جس کے انہیں فی کلو ڈیڑھ سو سے دو سو روپے مل جاتے ہیں جس روز شکار نہ ملے تو بچائے ہوئے پیسے ہی خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
مشکل وقت کو صبر سے گزارنے والی عورتیں
جال میں پھنسنے والی مچھلیوں کو دیکھ کر سنہری اور اوڈی کے چہرے پر مسکراہٹ نمایاں تھی۔ جال کو کھینچنے کے بعد ساحل پر لاکر مچھلیوں کو ریت پر ڈال دیا گیا یہ شکار بمشکل دو کلو سے بھی کم تھا۔
اس ہی میں سے چند مچھلیاں سنہری نے حاجانی کو دے دیں جو ریت پر بیٹھی اپنی ساتھیوں کی منتظر تھی۔ اب ان خواتین کی واپسی اپنے گوٹھ کی جانب تھی جہاں پہنچ کر انہوں نے دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرنا تھا۔
کچا مکان، اس کے باہر کونے میں بنا باورچی خانہ شکار کی ہوئی مچھلی کے سالن سے مہکنے لگا۔ دوسری جانب شکار کی ہوئی بڑی مچھلیوں کو خواتین گوٹھ سے کچھ دور ایک شخص کو فروخت کرنے کے لیے لے گئیں تاکہ انہیں کچھ روپے ملیں تو وہ رات کے کھانے کا بندوبست کرسکیں۔ ان تمام خواتین کے ساتھ ساتھ حاجانی کے لیے بھی ایک وقت کے کھانے کا انتظام ہو چکا تھا۔
حاجانی کے مطابق "مجھے اچھا نہیں لگتا کہ مجھے مانگ کر کھانا پڑے۔ میں بس چاہتی ہوں کہ جلد ازجلد صحت مند ہوجاؤں تو پھر سے میں پہلے کی طرح شکار کرنے کے لیے جاسکوں تاکہ اپنے اور بیٹے کے لیے پیٹ بھر کر کھانا بنانے کے قابل ہو سکوں۔ "
'سمندری طوفان عورتوں اور بچوں کے لیے زیادہ مشکلات لاتا ہے'
ماہرین کے مطابق سمندری طوفان سے گو کہ ہر شخص ہی متاثر ہوتا ہے، لیکن عورتوں اور بچوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ضلع سجاول میں فشر فوک فورم کے ترجمان نور محمد کے مطابق سمندر میں بننے والے اکثر طوفان زیادہ تباہی ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کے ساحلی علقوں میں ہی مچاتے ہیں لیکن مئی 1999 میں آنے والے طوفان نے یہاں کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔
ان کے بقول، زیرو ٹو اے نامی طوفان کو گزرے دو دہائی سے زیادہ بیت گیا ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی یہاں کے لوگ برداشت کر رہے ہیں۔ اب یہاں تین سے چار گوٹھ ایسے ہیں جن کی عورتیں ہی ماہی گیری کرتی ہیں۔"
نور محمد کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کے ساحلی علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
اس وقت ضلع سجاول کی 35 لاکھ ایکٹر، جب کہ کیٹی بندر، کھاروچھان اور ٹھٹھہ کی 15 لاکھ ایکٹر زمین سمندر نگل چکا ہے جس کے باعث اب بہت سی زرعی زمین نہ صرف سمندر برد ہوچکی ہے بلکہ وہ گوٹھ جو کئی نسلوں سے ساحلی پٹی پر آباد تھے وہ بھی اب سمندر کی نذر ہوچکے ہیں۔