|
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں پانچ افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہونے کے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
دالبندین پولیس اسٹیشن کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعے کی صبح دالبندین سے ایران جانے والے زائرین کی سیکیورٹی کے لیے پولیس کی گاڑیاں معمول کے گشت پر تھیں کہ انہیں بجلی کے کھمبوں سے بندھی پانچ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
اہلکار کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی مزید فورسز اور ایمبولینس موقع پر پہنچی اور لاشوں کو پرنس فہد بن سلطان اسپتال منتقل کردیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ پولیس اسٹیشن سے تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلے پر پیش آیا جہاں گورنمنٹ بوالز کالج دالبندین واقع ہے۔
دالبندین ضلع چاغی کا صدر مقام ہے اس شہر سے پاکستان اور ایران کی سرحدیں ملتی ہیں۔
ضلعی حکام نے بتایا ہے کہ مذکورہ لاشوں سے کسی قسم کی شناختی دستاویزات برآمد نہیں ہوئیں اس لیے شناخت کے لیے فنگر پرنٹس لے کر نادرا کو ارسال کیے گئے ہیں۔
پرنس فہد بن سلطان اسپتال کے ترجمان محمد جواد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک افغان شہری یحییٰ نے اسپتال حکام اور پولیس کو بتایا ہے کہ مقتولین ان کے رشتہ دار ہیں اور ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد میں سردار ولی، روزی محمد، آغا ولی، سمیع اللہ اور رحمت اللہ شامل ہیں۔
پولیس نے تاحال لاشیں ان کے ورثا کے حوالے نہیں کی ہیں۔
ایم ایس پرنس فہد بن سلطان اسپتال ڈاکٹر علی احمد کے مطابق پانچوں افراد کو سینے پر پانچ سے چھ گولیاں لگی ہیں اور یہ لاشیں ایک دن پرانی ہیں۔
ایس ایس پی چاغی حسین لہڑی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مقتولین کے فنگر پرنٹس لیے گئے ہیں۔ ان افراد کا تعلق افغانستان کے علاقے لشکر گاہ سے بتایا جاتا ہے۔
حسین لہڑی کے بقول تاحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان افراد کے قتل کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور نہ ہی کسی تنظیم یا گروہ نے ان کو مارے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
ایس ایس پی نے بتایا کہ پولیس اس حوالے سے مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
پولیس ذرائع نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ چھ افراد وہی ہو سکتے ہیں جن کو ہمسایہ ملک ایران میں سرگرم کالعدم مذہبی عسکریت پسند تنظم جیش العدل نے اپنے ایک رہنما کے قتل کے الزام میں اغوا کیا تھا۔
ان میں سے پانچ کی لاشیں ملی ہیں جب کہ ایک جس کا تعلق چاغی سے بتایا جاتا ہے تاحال رہا نہیں ہوا۔
بتایا جا رہا ہے کہ تنظیم نے کچھ روز قبل ان افراد کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ان افراد نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔
تاہم سیکورٹی فورسز اس حوالے سے مزید تحقیقات کر رہی ہیں کہ کیا واقعی ہلاک ہونے والے افراد وہی ہیں جو ویڈیو میں نظر آرہے ہیں یا یہ کوئی ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔