پاکستان نے داسو میں چین کے انجینئرز پر ہونے والے حملے کو خود کش حملہ قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے اس واقعہ میں ملوث پاکستان میں موجود نیٹ ورک کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستان نے اس واقعے میں افغان سر زمین استعمال کیے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ہدایات مل رہی تھیں۔حکام کے مطابق حملہ آوروں کا اصل ہدف بھاشا ڈیم تھا البتہ موقع نہ ملنے پر داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چین کے انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا۔
اسلام آباد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے انسدادِ دہشت گردی پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جاوید اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ داسو واقعہ انتہائی افسوسناک تھا۔ سانحے کی جگہ سے جو موبائل اور مواد ملا اس کے ذریعے معاملہ حل کرنا اہم کام تھا۔ جو گاڑی واقعے میں استعمال ہوئی اس کو ٹریک کیا۔ یہ دیکھا گیا کہ یہ گاڑی کہاں سے اور کیسے آئی؟
انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں واضح ہوا ہے کہ گاڑی افغانستان سے پاکستان اسمگل ہوئی۔
شاہ محمود کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی کی وجہ پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتے تھے البتہ واقعے کے بعد چین اور پاکستان نے تعلقات کے نئے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
انہوں نے واقعے کے بعد اپنے چین کے دورے کے حوالے سے کہا کہ دورے میں اہم امور پر تبادلۂ خیال ہوا۔ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان نے ہر لمحہ اعتماد میں لیا۔ مل کر واقعے کی مذمت کی تھی۔ اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ایسے واقعات عزم کو کمزور نہیں کریں گے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ منصوبوں کے لیے سیکیورٹی بڑھانی اور بہتر کرنی ہے۔ سی پیک منصوبے جاری رہیں گے اور پاک چین اسٹریٹجک شراکت داری متاثر نہیں ہو گی۔
تحقیقات کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چین کی ٹیم کو جائے وقوع کا دورہ کرایا گیا۔ تحقیقات کے بعد کچھ نتائج سامنے آئے۔ اس تفتیش کے دوران 36 سی سی ٹی ویز کیمروں کی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا۔ جائے وقوع سے خودکش حملہ آور کی انگلی اور انگوٹھا ملے۔ اس کے علاوہ کچھ موبائل ملے جن کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔ دوران تفتیش تمام ملازمین سے سوالات ہوئے۔ تفتیش کے بعد تحقیقاتی اداروں نے واقعے میں استعمال کی گئی گاڑی کو ٹریس کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقات میں انکشاف ہوا حملہ آوروں کا نشانہ دیامر بھاشا ڈیم تھا۔ اس واقعے میں افغان سر زمین استعمال ہوئی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس میں را اور این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ نظر آ رہا ہے۔
حملہ آور کون تھے، حملہ کیسے کیا گیا؟
خیبر پختونخوا کی انسداد دہشت گردی پولیس کے ڈی آئی جی جاوید اقبال بھی اس نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش کے آغاز میں پولیس کو گاڑی کے پارٹس اور دیگر اشیا کرائم سین سے ملیں جن سے تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ اس خود کش حملہ آور کا کوئی ریکارڈ نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود نہیں تھا۔ اس علاقے کی جیو فینسنگ کی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کی طرف آنے والے تمام راستوں پر موجود سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیا گیا اور کیمروں کے 500 جی بی ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جس میں اس گاڑی کی شناخت ہوئی۔ چمن میں ایک شو روم سے گزشتہ نومبر میں یہ گاڑی لی گئی تھی۔ حسین نامی شخص نے یہ گاڑی خریدی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حسین نامی شخص کے دو بیٹوں سے معلومات ملیں کہ اس گاڑی کو خریدنے کے بعد گزشتہ کئی ماہ تک ایک غار میں رکھا گیا تھا۔ حسین سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں کراچی سے ایک شخص ایاز کو گرفتار کیا گیا۔ جنہوں نے واقعے سے ایک ہفتہ قبل یہ گاڑی حملہ آور ٹیم کے حوالے کی تھی۔ افغانستان سے آنے والا طارق نامی شخص یہ گاڑی لے کر گیا تھا جس نے حملہ آور کو موقع پر پہنچایا۔ تفتیش کے مطابق خود کش حملہ آور کا نام خالد عرف شیخ تھا۔ البتہ اب تک کی معلومات کے مطابق یہ شخص رجسٹرڈ پاکستانی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے ہینڈلرز کو براہِ راست افغانستان سے این ڈی ایس اور را کے افسران ہینڈل کر رہے تھے۔ چھ سات ماہ قبل یہ منصوبہ بنا اور اس کے بعد اس پر عمل درآمد ہوا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس منصوبہ پر عمل کرنے والے تمام ہینڈلرز اور دہشت گردوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ افغانستان سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ باہمی معاونت کے تحت افغانستان میں موجود مجرمان کی گرفتاری میں پاکستان کی مدد کرے۔
بعد ازاں سوالات کے جواب دیتے ہوئے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس تفتیش کے پاکستان میں مکمل ہونے کے بعد چین کی حکومت کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ چینی سفیر سے یہ معلومات شئیر کرنے کے بعد اب افغانستان کی حکومت سے مجرمان کی گرفتاری کے لیے درخواست کی جائے گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ چینی ٹیم پاکستان آئی تھی ۔اس واقعے کی تحقیقات پاکستانی ادارے کر رہے تھے۔ ہماری تحقیقات سے چین کی ٹیم مطمئن ہے اور ہم ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
ڈی آئی جی جاوید اقبال نے کہا کہ فارنزک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں 100 سے 120 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے یہ گاڑی چمن سے پاکستان میں داخل ہوئی اور اس کے بعد مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی سوات پہنچی جہاں سے اسے حملے کے لیے استعمال کیا گیا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی سر زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اسی اصول کے پیشِ نظر افغانستان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سفیر نے جب اپنی بیٹی سے متعلق واقعہ رپورٹ کیا تو اسلام آباد نے افغانستان کی ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت دی۔ تمام تفتیش مکمل کی اور تمام معلومات ان کے ساتھ شئیر کیں۔ امید ہے کہ افغانستان بھی ایسا ہی کرے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 14 جولائی کو اپر کوہستان میں داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں نو چینی باشندوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ابتدا میں پاکستان کی طرف سے اس واقعے کو حادثہ قرار دیا تھا البتہ بعد میں چین نے اپنی ٹیم بھیجنے کا اعلان کیا اور تحقیقات میں شامل ہوئے جس کے بعد اب پاکستان نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث افراد کی گرفتاری اور افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کا الزام لگایا۔
پاکستان اور بھارت ایک دوسرے پر اپنی سرزمین پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں البتہ اسلام آباد اور نئی دہلی اس کو الزام قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہیں۔ جب کہ پاکستان اور افغانستان بھی ایک دوسرے سے اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مرتب کرنے تک افغانستان یا بھارت کی جانب سے پاکستان کی تحقیقات اور الزامات پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔