پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن میں اسلام آباد کے سابق سفیر کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے " ایف آئی اے' کی طرف سے کارروائی پر سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
یہ بات پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوال کے ایک جواب میں کہی جس میں ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا وزارت خارجہ سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف کوئی کارروائی کر رہی ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ صرف 'ایف آئی اے' کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے معاونت فراہم کر رہی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے کہ حکومت امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین کے خلاف فنڈز کے مبینہ غلط استعمال پر کارروائی کرنا چاہتی ہے۔
یہ بات پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا نے منگل کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم ایک تین رکنی بیچ کو بتائی جو حسین حقانی کے معاملے کی از خود سماعت کررہا ہے۔ عدالت عظمیٰ پہلے سے ہی حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے۔
وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے حسین حقانی کے خلاف ایف آر درج کرنے کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ کے قبل ازیں جاری ہونے والے ایک حکم پر عمل درآمد کروانے کے لیے حسین حقانی کو ملک واپس لانے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
رواں ماہ کے وسط میں جب عدالتِ عظمٰی نے ’میمو گیٹ‘ کیس کی سماعت کے موقع پر دریافت کیا تھا کہ حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں تو عدالت میں موجود 'ایف آئی اے‘ کے ایک افسر نے کہا تھا اس مقصد کے لیے انٹرپول کو ایک خط لکھ دیا گیا ہے۔
اُھرد ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے ایک بیان میں حسین حقانی کے حوالے سے بتایا جا چکا ہے کہ بین الاقوامی قوانین میں ایسے خط کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔