پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے امریکہ میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے بین الاقوامی پولیس انٹرپول سے رابطہ کیا ہے جس کے بعد اب حکومت کو انٹرپول کے جواب کا انتظار ہے۔
رواں ماہ کے وسط میں جب عدالتِ عظمٰی نے ’میمو گیٹ‘ کیس کی سماعت کے موقع پر دریافت کیا تھا کہ حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں تو عدالت میں موجود 'ایف آئی اے‘ کے ایک افسر نے کہا تھا اس مقصد کے لیے انٹرپول کو ایک خط لکھ دیا گیا ہے۔
’ایف آئی اے‘ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک انٹرپول سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔
اُھرد ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والے ایک بیان میں حسین حقانی نے کہا ہے کہ خبر بنانے کے لیے اس طرح کے خط لکھے جاتے ہیں لیکن اُن کے بقول بین الاقوامی قوانین میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے حال ہی میں ’میمو گیٹ‘ مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع کی ہے اور اسی ماہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے حلف کی مبینہ خلاف ورزی پر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
واضح رہے کہ میمو گیٹ اسکینڈل 2011ء میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا تھا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔
’ممیو‘ کے مطابق اس میں اس وقت کی برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے مبینہ طور پر امریکی حکام سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں ممکنہ فوجی مداخلت اور سویلین حکومت کے خاتمے کی کوششوں کو روکیں۔
تاہم حسین حقانی اور اس وقت کی حکومت نے اس میمو سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
میمو گیٹ کا معاملہ منظرِ عام پر آنے کے بعد حسین حقانی نے نومبر 2011ء میں بطور سفیر استعفیٰ دے دیا تھا۔
جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے کہنے پر حسین حقانی ممیو گیٹ سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے پاکستان واپس بھی آئے تھے اور عدالتوں میں پیش بھی ہوئے تھے۔
لیکن بعد میں 2013ء میں اس یقین دہانی کے بعد اُنھیں سپریم کورٹ کی طرف سے بیرون ملک کی اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ واپس آ کر عدالتی کارروائی کا سامنا کریں گے لیکن اس کے بعد سے حسین حقانی پاکستان واپس نہیں آئے۔