'افغانستان میں موجود سیاسی رہنماؤں کا طالبان پر کوئی اثر و رسوخ نہیں"

فائل فوٹو

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جب اگست 2001 میں طالبان داخل ہوئے تو سابق حکومت کے لگ بھگ تمام وزرا اور اعلیٰ حکام ملک سے فرار ہو گئے تھے۔

صدر اشرف غنی نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ متحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ حاصل کی۔ ان کے دو نائب صدور امر اللہ صالح اور محمد سرور دانش کے ساتھ ساتھ ان کی کابینہ کے تمام ارکان دیگر ممالک منتقل ہوئے۔

اشرف غنی نے افغانستان سے فرار ہونے کے تین بعد ایک ویڈیو جاری کی تھی اور اپنے فرار کی وجوہات میں کہا تھا کہ ان کے پاس فرار کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے ان کا حال بھی سابق صدر محمد نجیب اللہ کی طرح ہو۔

واضح رہے کہ 1996 میں جب طالبان نے پہلی بار اقتدار حاصل کیا تھا تو اس وقت ملک کے صدر محمد نجیب اللہ تھے۔ طالبان نے کابل میں داخل ہونے کے بعد انہیں تشدد کے بعد قتل کر دیا تھا۔

اشرف غنی نے اس وقت ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ اگر وہ ملک میں رہتے تو ملک کے صدر کو عوام سامنے ایک بار پھر قتل کر دیا جاتا۔

طالبان کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ کیا سلوک کیا جا سکتا تھا یہ تو اندازے ہی ہیں لیکن طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ طالبان اشرف غنی سمیت کسی کو بھی نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان سے انخلا کے دو برس مکمل، امریکہ اور طالبان نے کیا حاصل کیا؟

طالبان کے عام معافی کے دعوے حقیقت کے برعکس

لیکن طالبان کے یہ دعوے حقیقت نہیں کیوں کہ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی سابق فورسز کے سیکڑوں اہلکاروں کو قتل کیا ہے یا انہیں حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ طالبان کے ان دعوؤں کی نفی کرتی ہے جن میں انہوں نے سب کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا تھا۔

افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی رواں ہفتے ہی سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گزشتہ دو برس کے دوران ماورائے عدالت قتل کے 218 واقعات پیش آئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن نے ماورائے عدالت قتل، گرفتاریوں، تشدد اور جبری گمشدگیوں کے لگ بھگ 800 واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعات طالبان کے اقتدار میں آنے اور عام معافی کے اعلان کے بعد عمل میں آئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جن افراد کو نشانہ بنایا گیا ان میں بیشتر افراد وہ تھے جن کا تعلق کابل میں امریکی حمایت یافتہ سابق حکومت سے تھا۔ ان میں فوج، انٹیلی جنس اداروں اور پولیس کے اہلکار شامل تھے۔

متعدد واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کو موت سے کچھ دیر قبل حراست میں لیا گیا تھا۔کچھ افراد دورانِ حراست ہلاک ہوئے جن کی لاشوں کو یا تو پھینک دیا گیا یا پھر ان کے اہلِ خانہ کے حوالے کر دیا گیا۔

افغانستان میں موجود سیاسی رہنما

افغانستان کے کئی سابق سیاسی رہنماؤں نے ملک میں ہی قیام کا فیصلہ کیا جب کہ وہ سیاسی طور پر کسی حد تک متحرک بھی ہیں۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور قومی مصالحتی کونسل کے سابق سربراہ عبداللہ عبداللہ اب بھی کسی حد تک متحرک ہیں۔ وہ مقامی افراد سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان سے ملنے سفیر اور دیگر امدادی اداروں کے عہدیدار آ رہے ہیں۔

اسی طرح وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سےانتہائی محتاط انداز میں بیانات جاری کرتے ہیں۔ وہ اپنے نپے تلے بیانات میں ملک میں برسرِ اقتدار طالبان پر لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولنے پر زور دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع مسدود کرنے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ تاہم وہ طالبان کی خواتین مخالف پالیسیوں پر باقی دنیا کی طرح براہِ راست تنقید سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔

’سیاسی رہنماؤں کو طالبان کی مخالفت کی آزادی حاصل نہیں

گزشتہ دو برس میں ایک بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ افغانستان کے سابق برسرِ اقتدار رہنما جو ملک سے فرار ہو چکے ہیں یا وہ ملک میں ہی موجود ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی طالبان کی پالیسیوں پر کسی بھی طرح اثر انداز نہیں ہو سکا ہے۔

اشرف غنی کے دور صدارت میں ان کے ترجمان رہنے والے صادق صدیقی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے اکمل داوی سے گفتگو میں کہا کہ وہ رہنما جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں افغانستان میں رہنے کو ترجیح دی وہ طالبان پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انہیں آزادی حاصل ہے کہ وہ طالبان کی مخالفت کر سکیں۔

اشرف غنی سمیت افغانستان سے باہر دیگر افغان سیاسی رہنما طالبان پر سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سخت تنقید کرتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان: 'تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے فن اور پیشے پر پابندی ہے'

صادق صدیقی تجویز دیتے ہیں کہ اگر افغانستان کے جلا وطن رہنما کسی پائیدار سیاسی تصفیے پر متفق ہو جائیں اور مشترکہ طور پر ملک کی بہتری کے لیے مصروفِ عمل ہوں تو یہ ایک منصفانہ عمل ہوگا۔

لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں حکومت کے خاتمے کے بعد فرار ہونے والے سیاسی رہنما طالبان کے ساتھ کس قسم کے سیاسی تصفیے پر متفق ہو سکتے ہیں۔

عوام ملک میں موجود رہنماؤں کے معترف

اشرف غنی کی حکومت میں طالبان سے مذاکرات کرنے والی سرکاری ٹیم کے رکن اور سابق رکنِ پارلیمان نادر نادری نے ہمارے نمائندے اکمل داوی سے گفتگو میں کہا کہ تاریخ ان لوگوں کا فیصلہ کرے گی جنہوں نے ملک چھوڑ دیا۔ ان کے بقول، کئی افغان حامد کرزئی اور عبد اللہ عبد اللہ سمیت ان رہنماؤں کے معترف ہیں جو اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔

نادر نادری امریکہ میں وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز سے وابستہ ہیں۔ نادر کہتے ہیں جب سخت وقت آتا ہے تو رہنما اپنے عوام کے درمیان ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان سے انخلا کے آخری ہفتوں میں امریکہ نے اگست 2021 میں لگ بھگ ایک لاکھ 20 ہزار افراد کو طیاروں کی مدد سے افغانستان سے منتقل کیا تھا۔ یہ خدشات موجود تھے کہ طالبان اقتدار میں آتے ہی ان افراد کو نشانہ بنائیں گے جنہوں نے امریکہ اور سابق افغان حکومت کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

"اسکول نہ کھلے تو زندگی میں اندھیرے چھا جائیں گے"

امریکہ نے فضائی آپریشن میں جن لوگوں کو افغانستان سےنکالا ان میں سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ افغان قانون ساز، وزرا، صحافی اور انسانی حقوق کے رضا کار شامل تھے۔

گزشتہ دو برس کے دوران امریکہ، کینیڈا اور بعض یورپی ممالک نے ان افغان شہریوں کے انخلا کو ممکن بنایا جن کو ملک میں خطرات لاحق تھے۔

تعلیم یافتہ اور پیشہ ور طبقے کی ہجرت

طالبان کی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کی پالیسیوں اور غربت کے سبب بھی ملک کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد ترکی، ایران اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک ہجرت پر مجبور ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عمر زاخیل وال افغانستان کے 2009 سے 2015 تک وزیرِ خزانہ اور 2016 سے 2018 تک پاکستان میں سفیر تھے۔ انہوں نے اکمل داوی سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان سے تعلیم یافتہ اور پیشہ ور طبقہ ہجرت کر رہا ہے جس سے ملک بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

ان کے بقول اگر صرف سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ افراد بھی ملک میں موجود رہتے تو افغانستان کی ترقی کے لیے یہ بہتر ہوتا۔

کئی طبقات کی زندگی مشکل

افغانستان میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی طالبان کے اقتدار میں مشکل ہو چکی ہے۔

پشتانہ دورانی افغانستان میں خواتین کے حقوق کی رہنما ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان دنیا میں خواتین پر سب سے زیادہ مظالم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔

دوسری جانب طالبان مسلسل اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انہوں نے رواں ماہ ہی ملک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔

طالبان کی وزارتِ انصاف کا یہ اقدام اپنے مخالفین کو مؤثر انداز میں یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ وہ یا تو افغانستان چھوڑ دیں یا پھر ایک غیر جمہوری حکمرانی میں رہیں۔