بھارت کے شہر لکھنؤ کی متنازع شخصیت اور اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے پیر کو مذہب اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے۔
انہیں اتر پردیش کے علاقے غازی آباد میں ڈاسنہ دیوی مندر کے سوامی یتی نرسنگھا نند نے ہندو مذہب میں شامل کیا۔
نرسنگھا نند کے مطابق وسیم رضوی کا نیا نام جتیندر نرسنگھا نند تیاگی رکھا گیا ہے۔
غازی آباد کے اسی مندر میں رواں برس 14 مارچ کو پانی پینے کی وجہ سے ایک 13 سالہ مسلم لڑکے آصف کو زدوکوب کیا گیا تھا۔
وسیم رضوی نے بھارت کے نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے اسلام سے باہر کر دیا گیا تھا۔ میرے اوپر رکھی گئی انعام کی رقم میں ہر جمعہ کو اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج میں نے ہندو مذہب اختیار کر لیا۔"
آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے قومی صدر سوامی چکرپانی نے کہا کہ سابق مسلم مذہبی شخصیت وسیم رضوی کے ہندو مذہب اختیار کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وسیم رضوی ہندو مت کے ایک فرد ہیں۔ کوئی بھی ان کے حلاف فتویٰ جاری کرنے کی ہمت نہ کرے۔ ریاستیں اور مرکزی حکومتیں انہیں مناسب سیکیورٹی فراہم کریں گی۔
وسیم رضوی متنازع شخصیت کے مالک رہے ہیں۔ انہوں نے 12 مارچ کو سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی 26 آیات کو حذف کرنے کی اپیل کی تھی۔
ان کا الزام تھا کہ بقول ان کے یہ آیات مسلمانوں میں دہشت گردی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ 26 آیات اصل قرآن میں نہیں تھیں۔ انہیں بعد میں قرآن میں شامل کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ان کی اس اپیل کو خارج کر دیا تھا اور ان پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
انہوں نے رواں برس مئی میں یہ اعلان کر کے ایک نئے تنازع کو جنم دیا تھا کہ انہوں نے ایک نیا قرآن تصنیف کیا ہے۔
انہوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط میں اپیل کی تھی کہ اس نئے قرآن کو پورے ملک کے تمام مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے لیے شامل کیا جائے۔
شیعہ اور سنی اداروں نے ان کے اس اقدام کی مذمت کی تھی اور انہیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی ان کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق مراد آباد کے ایک وکیل نے مبینہ طور پر ان کا سر قلم کرنے پر 11 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ اترپردیش کی ایک تنظیم ’شیعان حیدر کرار ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ نے 20 ہزار روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا۔
وسیم رضوی نے رواں برس نومبر میں ایک ویڈیو بیان جاری کر کے اعلان کیا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی میت کو سوامی یتی نرسنگھا نند کو سونپ دیا جائے۔ وہ اسے دفنانے کے بجائے نذرِ آتش کریں۔
انہوں نے جنوری 2018 میں وزیرِ اعظم مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام ایک خط میں اپیل کی تھی کہ ملک کے تمام مدارس کو بند کر دیا جائے۔ کیونکہ ان کے بقول ان مدارس میں طلبہ کو دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ مدارس میں طلبہ کو دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
ان کے اس اعلان کے بعد بریلی کی ایک مذہبی تنظیم آل انڈیا فیضان مدینہ کونسل‘ نے ان کا سر قلم کرنے والے کو دس ہزار 786 روپے کے انعام اور مفت حج کرانے کا اعلان کیا تھا۔
وسیم رضوی نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ متنازع مساجد کو ہندوؤں کے حوالے کر دیں۔ انہوں نے بابری مسجد کو بھارت کی سر زمین پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا تھا۔
انہوں نے چاند تارے والے ہرے رنگ کے پرچم کو پاکستان کا جھنڈا قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ جو بھی اسے لہرائے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
وسیم رضوی سعودی عرب، جاپان اور امریکہ میں ملازمت بھی کرتے رہے ہیں۔
اس کے بعد وہ لکھنو آ گئے اور سماجوادی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ انھیں 2008 میں شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کا رکن اور پھر چیئرمین منتخب کیا گیا۔ وہ دس سال تک چیئرمین رہے۔
بعد میں مالی بدعنوانی کے الزام میں انھیں سماجوادی پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔