افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے کہا ہے کہ حکومت کا افغان شہریوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کابل کی طرف سے اسلام آباد کے خدشات دور نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔لیکن اسلام آباد کو طالبان حکومت کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں منصور احمد خان نے کہاکہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ملوث ہونے اور افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے شواہد سامنے آنے پر حکومت کو افغان پناہ گزینوں سے متعلق اقدامات لینا پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات طالبان کی کابل حکومت کو دباؤ میں لانے کی تدبیر ہے لیکن بہتر ہوتا کہ عوامی سطح پر گفتگو کے بجائے دونوں ملکوں کے ریاستی فورمز پر بات چیت کی جاتی۔
ان کے بقول سرحدی امور اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے تحفظات پر افغان طالبان کی جانب سے پیش رفت نہ ہونے پر پاکستان کو تشویش ہے۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر تک کی مہلت دی ہے۔حال ہی میں یہ فیصلہ پاکستان کے سول وفوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا۔
پاکستان کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آنے والے سامان پر 10 فی صد پروسیسنگ فیس بھی عائد کی گئی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
منصور احمد خان کے مطابق افغانستان کے موجودہ حالات میں افغان شہریوں کی واپسی اور باعزت آبادکاری ممکن نہیں، اگر یہ حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہوتی تو اس کے دونوں ملکوں کے باہمی اور عوامی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے بقول رجسٹرڈ پناہ گزینوں کے علاوہ پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی واپسی کےلیے کابل سے بات چیت کے ذریعے روڈ میپ طے کیا جانا چاہیے۔ جلد بازی میں کیے گئے اقدامات ماضی میں بھی ناکام رہے ہیں اور موجودہ حالات میں زمینی حقائق اس پالیسی کے موافق نہیں۔
سابق سفیر کے خیال میں طالبان کی افغان حکومت پاکستان سے بے دخل ہونے والوں کو آباد کرنے کی استعداد نہیں رکھتی۔
SEE ALSO: پاکستان سے افغان باشندوں کی ممکنہ ملک بدری؛ طالبان حکام نے انتظامات شروع کر دیےطالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب مجاہد نے جمعرات کو کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے عوام اور علما سے اپیل کی تھی کہ وہ افغان شہریوں سے متعلق حکومتِ پاکستان کے فیصلے کی مخالفت کریں۔
منصور احمد خان نے کہا کہ افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا انتظام سنبھالنے کے بعد پاکستان کو یقین دہانیاں کروا رکھیں تھیں کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کرنے میں پاکستان کی مدد کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ افغان طالبان شدت پسند گروہ کے خلاف اقدامات لیں گے جو نہیں لیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کو ادراک ہے کہ پاکستان سے بات چیت ضروری ہے لیکن اس کے لیے ماحول بنایا جانا چاہیے جب کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہیے۔