امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ناراض ری پبلکن پارٹی کے درجنوں رہنماؤں نے ٹرمپ مخالف دائیں بازو کی نئی جماعت یا پارٹی کے اندر نیا دھڑا بنانے کے لیے مشاورت شروع کر دی ہے۔
کئی ری پبلکن رہنماؤں کی جانب سے صدارتی انتخابات کے بعد ٹرمپ کے طرزِ عمل کو جمہوریت کے منافی قرار دیتے ہوئے ناپسندیگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
جن افراد نے اس مشاورت میں حصہ لیا ان میں سابق ری پبلکن قانون ساز، سابق صدور رونلڈ ریگن، جارج ڈبلیو بش سینئر، جارج ڈبلیو بش جونیئر، سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل بعض رہنما، سابق سفارت کار اور ری پبلکن منصوبہ ساز شامل ہیں۔
جمعے کو ان 120 افراد نے 'زوم' کال کے ذریعے پارٹی کے نئے دھڑے کی تشکیل پر غور و خوص کیا جو اُن کے بقول اُصولوں کے مطابق قدامت پسندی، آئین اور جمہوریت کے تحفظ کا علم بردار ہو گا۔
2016 کے صدارتی انتخابات میں بطور آزاد اُمیدوار حصہ لینے والے سیاست دان ایون مک مولین نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ وہ 'زوم' میٹنگ کے شریک میزبان تھے۔
اُن کے بقول اس میٹنگ میں سابق صدر ٹرمپ کے پارٹی پر اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مک مولین ںے بتایا کہ اجلاس کے دوران یہ تجویز بھی زیرِ غور آئی کہ قومی سطح پر ایک تیسری جماعت بنا لی جائے۔ جب کہ بعض شرکا نے یہ تجویز دی کہ ایک الگ دھڑا بنا لیا جائے جو پارٹی کے اندر یا اس سے باہر رہ کر کام کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اطلاعات کے مطابق نئی پارٹی کے لیے جو نام زیرِ غور ہیں، اُن میں 'انٹیگرٹی پارٹی' یا 'سینٹر رائٹ پارٹی' شامل ہیں۔ اگر پارٹی کے اندر ہی الگ دھڑا بنایا جاتا ہے تو اس کا متوقع نام 'سینٹر رائٹ ری پبلکنز' ہو سکتا ہے۔
میٹنگ میں شریک مزید تین افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' کو بتایا کہ مشاورت میں پارٹی کے اندر نیا دھڑا بنانے کی تجویز پر غور کیا گیا۔
'زوم' میٹنگ میں ٹرمپ دورِ حکومت میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے عہدے دار جان مٹننگ، سابق رُکن کانگریس چارلی ڈینٹ، ٹرمپ انتظامیہ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے عہدے دار الزبتھ نیومین اور مائلز ٹیلر بھی شریک تھے۔
میٹنگ میں صدارتی انتخابات کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے اور چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد پارٹی کے اندر بڑھتے ہوئے اختلاف رائے پر بھی بات کی گئی۔
صدارتی انتخابات کے بعد ری پبلکن پارٹی کے رہنماؤں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مؤقف کی تائید کی تھی جب کہ کئی رہنماؤں نے پارٹی کو نئی سمت دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 'زوم کال' کے شرکا نے کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کے کچھ ہی دیر بعد آدھے سے زیادہ ری پبلکن اراکین کی جانب سے یہ توثیق روکنے کے لیے ووٹ دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔
بہت سے ری پبلکن سینیٹرز یہ عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ سینیٹ میں سابق صدر ٹرمپ کے حق میں ہی ووٹ دیں گے۔
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے مک مولین نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ری پبلکن اراکین کا ایک بڑا حصہ بنیاد پرست ہوتا جا رہا ہے جو امریکی جمہوریت کے لیے خطرے کی علامت ہے۔
ری پبلکن پارٹی میں ٹرمپ کے مخالفین کی جانب سے اس میٹنگ کے انعقاد پر ردِعمل دیتے ہوئے ٹرمپ کے ترجمان جیسن ملر نے بتایا کہ "یہ ہارے ہوئے لوگ اسی وقت ری پبلکن پارٹی سے نکل گئے تھے جب انہوں نے جو بائیڈن کو ووٹ دیا۔"
'ری پبلکن نیشنل کمیٹی' کی چیئروومن رونا میک ڈینئل نے گزشتہ ماہ 'فوکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ "اگر ہم آپس میں ہی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہے یا ری پبلکنز کے درمیان اختلافات رہے تو 2020 کے وسط مدتی انتخابات میں ہمیں بہت مشکل ہو گی۔"