فلو کے متعلق حالیہ ایک صدی کے دوران بہت کچھ سننے میں آ رہا ہے۔ کبھی یہ برڈ فلو اور سوائن فلو کے ناموں سے سامنے آیا اور ایک صدی پہلے اس نے سپینش فلو کے نام سے دنیا بھر میں تباہی مچائی اور لاکھوں زندگیاں نگل ڈالیں۔ اور اب کووڈ۔19 کے نام سے کل عالم میں دہشت اور اموات کا سبب بنا ہوا ہے۔ لیکن آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ یہ مرض 15 کروڑ سال پہلے بھی اپنا وجود رکھتا تھا۔
سائنس دانوں کی ایک ٹیم کو معلوم ہوا ہے کہ 15 کروڑ سال پہلے "ڈولی" کو فلو ہوا تھا۔ اس میں کھانسی، بخار، درد، چھینکیں آنے اور سانس لینے میں دشواری کی علامات تھیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس کی موت کا سبب بھی یہی مرض بنا تھا۔
اب آپ پوچھیں گے کہ "ڈولی" کون ہے۔ ڈولی امریکی ریاست مونٹانا میں قائم ڈینوساروں کے میوزیم میں رکھے ہوئے ایک مادہ ڈینوسار کے ڈھانچے کا نام ہے۔ آج سے 15 کروڑ سال پہلے وہ اس علاقے کی گرم مرطوب فضاؤں میں سانس لیتی تھی اور گھنے جنگلات میں گھوم پھر کر اپنی پسند کے درختوں اور پودوں کے پتے کھاتی تھی۔
اور ہاں یہ بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ ڈولی کوئی نازک اندام ڈینوسار نہیں تھی۔ اونٹ کی طرح لمبی گردن اور مگرمچھ کی طرح لمبی دم والی ڈولی کی مجموعی لمبائی تقربیاً 60 فٹ تھی۔ اس کی ہلاکت تقریباً 15 سال کی عمر میں ہوئی اور موت کی وجہ سانس کا مرض تھا جس کی علامتیں فلو جیسی تھیں۔
ڈولی کی کہانی 1990 میں اس وقت شروع ہوئی جب آثار قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم کو کھدائی کے دوران ایک ڈینوسار کے ڈھانچے کی باقیات کے کچھ حصے ملے جس میں اس کی کھوپڑی، گردن، کندھے اور پسلیاں شامل تھیں۔ انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ لمبی گردن والے سبزی خور ڈینوسار کی باقیات ہیں، اسے ڈولی کے نام سے منسوب کر دیا۔
موٹانا کے گریٹ پلینز ڈینوسار میوزیم کے آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر کیری وڈ رف کہتے ہیں کہ ڈینوسار کی یہ قسم وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے پرندوں میں تبدیل ہو گئی۔ آج کے دور میں اس نسل کی قریب ترین مثال کبوتر ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کا تنفس کا نظام ماضی کے اس ڈینوسار کے سانس لینے کے نظام کے قریب ترین ہے۔آسڑیلیا کی سوائن برن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ایک سائنس دان ڈاکٹر پروپٹ کہتے ہیں کہ ان کی گردن کی ہڈیوں کی ساخت ہمیں یہ بتانے میں مدد دیتی ہے کہ آیا وہ سانس کے انفکشن میں مبتلا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈولی کی گردن کی ہڈیوں کی ساخت اس نسل کے دوسرے ڈینوساروں سے قدرے مختلف تھی۔ جب ان کا سٹی سکین کیا گیا تواس کے نتائج حیران تھے۔ اس ڈیٹا کو دنیا بھر کے ماہرین سے شیئر کیا گیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ ہڈیوں کی ساخت میں غیر معمولی تبدیلی کی وجہ سانس کا انفکشن تھا، کوئی اور چیز نہیں۔
SEE ALSO: زندگی کی ابتدا جنوبی افریقہ سے ہوئیڈاکٹر وڈرف کہتے ہیں کہ سانس کا جراثیمی انفکشن زمانہ قدیم کے ڈینوساروں اور آج کے پرندوں میں عام ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر علاج نہ کیا جائے تو سانس کے انفکشن پرندوں کے لیے زیادہ تر مہلک ثابت ہوتے ہیں ۔اور اگر ہم ماضی میں جائیں تو ڈینوساروں کی دنیا میں یہ بیماری ایک مختلف انداز میں بیمار ڈینوسار پر اثرانداز ہوتی ہو گی۔ سبزی خور نسل کے ڈینوسار عموماً ریوڑ کی شکل میں رہتے تھے۔ بیمار ڈینوسار کمزوری کے باعث ریوڑ کے ساتھ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا تھا اور سست پڑ کر الگ تھلگ ہو جاتا تھا۔ بعد ازاں وہ یا تو بیماری کی شدت کی وجہ سے مر جاتا تھا یا پھر کوئی گوشت خور ڈینوسار اسے ہلاک کر ڈالتا تھا۔
سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سائنسی تجزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 15 کروڑ سال پہلے 15 سالہ نوعمر ڈولی کو ہونے والے سانس کے انفکشن نے اس کے پھپھڑوں کو متاثر کیا جو بعد ازاں اس کی ہڈیوں میں منتقل ہو گیا تھا، جس کی نشاندہی سٹی سکین کے ذریعے اس کی گردن کی ہڈیوں میں رونما ہونے والی تبدیلی سے ہوئی۔
اس تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی دنیا میں آمد سے کروڑوں سال پہلے فلو سے ملتا جلتا مرض موجود تھا اور اسی طرح کا مرض آج کے پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے، جو بعض غیر معمولی حالات میں انسانوں میں منتقل ہو کر تشویش ناک صورت حال پیدا کر دیتا ہے۔
انسان اس کرہ ارض پر سب سے نیا ہے۔ اس کی کہانی دو اڑھائی لاکھ سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے۔ جب ہم 15 کروڑ سال پہلے کی بات کرتے ہیں تو اس وقت زمین پر چھوٹے بڑے ڈینوساروں کا راج تھا۔ ان کی کچھ اقسام سبزی خور تھیں۔ وہ درختوں کے پتے اور گھاس وغیرہ کھاتی تھیں تو ان میں سے کچھ گوشت خور تھے، جو زندہ رہنے کے لیے دوسرے جانداروں اور ڈینوساروں کا شکار کرتے تھے۔ پھر کئی کروڑ سال پہلے نامعلوم حالات کی بنا پر ڈینوسار دنیا سے مٹ گئے اور کئی دوسرے جاندار ارتقائی تبدیلیوں سے گزر کر آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آج کے پرندے سبزی خور ڈینوساروں کی ترقی یافتہ شکل ہے، جنہوں نے گوشت خور ڈینوساروں سے بچنے کے لیے نہ صرف اپنا وزن کم کیا تاکہ تیزی سے بھاگ سکیں بلکہ اڑنا بھی سیکھ لیا۔