جب ڈائنا سور کا نام آتا ہے تو ذہن میں ایک بہت بڑے جانور کی تصویر ابھرتی ہے۔ زیادہ تر ڈائنا سور اپنے حجم میں بہت بڑے ہوتے ہیں۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم نیچرل ہسٹری میوزیم کے وسطی ہال میں ایک بہت بڑے ڈائنا سور کی ہڈیوں کا ڈھانچہ رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر خوف آتا ہے کہ جب یہ دیو ہیکل جانور زمین پر قدم رکھتا ہو گا تو وہ اس کے بوجھ سے لرز جاتی ہو گی اور وہاں موجود دوسری چھوٹے موٹے جانوروں کے دل دہل جاتے ہوں گے۔ اس میوزیم میں بیسیوں چھوٹے بڑے ڈائنا سور کے ڈھانچے رکھے ہیں جو کئی کروڑ سال پہلے کرہ ارض پر راج کرتے تھے۔
میوزیم میں رکھے چھوٹے دینوسار بھی آج کل کے جانوروں کے مقابلے میں بڑے دکھائی دیتے ہیں، جس سے اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ ڈائنا سور بڑے ہی ہوتے تھے۔ لیکن حال ہی میں ماہرین کو ایک ایسے ڈائنا سور کی باقیات ملی ہیں جس کا سائز محض چار انچ ہے۔ اسے بلاشک و شبہ اب تک دریافت ہونے والا سب سے چھوٹا ڈائنا سور کہا جا سکتا ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس ڈائنا سور کا تعلق قبل از تاریخ کے اس دور سے ہے جب دنیا میں زمین پر چلنے اور ہوا میں اڑنے والے ڈائنا سور پائے جاتے تھے۔ کرہ ارض پر گھنے جنگلات اور پانی کی بہتات تھی۔ ڈینوساروں کی بیییوں اقسام وجود میں آ چکی تھیں۔ ان میں سے کئی گوشت خور اور دیگر سبزی خور تھیں۔
نارتھ کیرولائنا کے میوزیم آف نیچرل سائنسز کے ایک ماہر ارضیات اور محقق ڈاکٹر کرسچن کیمر، جو اس ریسرچ کے مصنف بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اپنے دور کا ایک خوبصورت ڈائنا سور ہو گا۔ آپ ذرا ایک ایسے ڈائنا سور کا تصور کریں جسے آپ اپنی ہتھیلی میں رکھ سکیں۔ وہ آپ کو یقیناً اچھا لگے گا۔
چار انچ لمبا یہ ڈائنا سور کانگونافون ہے۔ جب یہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چلتا ہو گا تو، نظروں کو بہت بھلا لگتا ہو گا، مگر افسوس اس وقت کوئی اس کی خوبصورتی اور چال کی تعریف کرنے والا موجود نہیں تھا، کیونکہ انسان کا ظہور ڈائنا سوروں کی نسل ختم ہونے کے کروڑوں سال کے بعد ہوا۔ دنیا میں واحد انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو نہ صرف حسن کو محسوس کر سکتی ہے بلکہ اسے بیان بھی کر سکتی ہے۔
کیمر نے بتایا ہے کہ کانگونا فون کی باقیات مڈغاسکر سے دریافت ہوئیں تھیں جن پر تحقیق کے بعد سائنس دانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا دور آج سے237 ملین سال یعنی 23 کروڑ 70 لاکھ سال پہلے کا ہے۔ ہڈیوں کی ساخت سے پتا چلا ہے کہ وہ ایک ننھا سا نر ڈائنا سور تھا۔
ننھے ڈائنا سور کا تعلق ٹرائسیک دور سے ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ڈائنا سور اور قدیم اڑنے والے جانور کرہ ارض پر موجود تھے۔ یہ دونوں جانوروں کی ایک قدیم نسل اورنیتھوڈیا سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی اپنی سمت میں ارتقا کے مراحل سے گزر رہے تھے۔
ڈاکٹر کرسچن کیمر کہتے ہیں کہ دنیا کے مختصر ترین ڈائنا سور کی دریافت ہونے والی باقیات اتنی کم ہیں کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ وہ ڈنیوساروں یا اڑنے والے جانوروں میں سے کس نسل کے زیادہ قریب تھا۔
تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اتنے چھوٹے ڈائنا سور کی دریافت سے یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ جانوروں پر بال اور پر کیوں اگنے شروع ہوئے تھے۔ جانوروں کے جسم میں آنے والی تبدیلیاں موسم اور حالات کے تابع ہوتی ہیں۔ اس دور میں دن اور رات کے درجہ حرارت میں موجود فرق کا مقابلہ کرنے اور گھٹتے بڑھتے درجہ حرارت میں زندہ رہنے کے لیے اس چھوٹے ڈنیوسار کو اپنا جسم گرم رکھنے کے لیے بالوں یا پروں کی ضرورت پڑی ہو گی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فطری ارتقائی عمل سے جانوروں کے بال اور پر نکلنے شروع ہو گئے ہوں گے۔