افغانستان میں بر سرِ اقتدار طالبان نے افغان لڑکیوں کی تعلیم کے حامی سماجی کارکن مطیع اللہ ویسا کو گرفتار کر لیا ہے۔
افغان طالبان کے اس اقدام کی اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے مذمت کی اور ان کو فوری طور پر رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مطیع اللہ ویسا کے بھائی عطا اللہ ویسا نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو طالبان نے پیر کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ کابل کے نواح میں خوش حال خان مینہ کے علاقے میں مسجد میں مغرب کی نماز پڑھ کر باہر نکلے تھے۔
مطیع اللہ ویسا لڑکیوں کی تعلیم کی آگاہی کے حوالے سے کافی متحرک سماجی کارکن رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم ’پین پاتھ‘ بھی قائم کی تھی۔
افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے اقوامِ متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کا کہنا تھا کہ سب سے اہم مطیع اللہ ویسا کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ کے تمام قانونی حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں معاونتی مشن (یوناما) نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ مطیع اللہ کو ان کے قانونی مشیروں اور خاندان کے افراد سے ملاقات کی رسائی دی جائے اور یہ بھی واضح کیا جائے کہ ان کو کس جگہ رکھا گیا ہے۔
یوناما نے ان کو گرفتار کرنے کی وجوہات بھی سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ مطیع اللہ ویسا کی گرفتاری سے ان کو شدید تشویش لاحق ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مطیع اللہ ویسا 2009 سے افغانستان میں لڑکے اور لڑکیوں کے تعلیم کے حق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے کئی سیاسی رہنماؤں نے مطیع اللہ ویسا کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کی رہائی پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے اچانک انخلا کے بعد طالبان اقتدار میں آ گئے تھے اور انہوں نے اپنی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا جسے تاحال کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افغان سماج میں کئی تبدیلیوں کی پالیسی اپنائی ہے جس میں خواتین پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔
SEE ALSO: افغانستان میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کھولنے کا مطالبہ، خواتین کا احتجاجافغانستان دنیا میں اس وقت واحد ملک قرار دیا جاتا ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے اور وہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں تعلیم کے حصول کے لیے نہیں جا سکتیں۔
طالبان ان پابندیوں کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سازگار ماحول نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب بین الاقوامی برادری طالبان پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ امریکہ سے فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرے اور خواتین کو ان کے حقوق دیے جائیں جن میں تعلیم کا حصول اور ملازمت کرنا شامل ہے۔
اس سے قبل 1996 سے 2001 تک طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تھی۔ اس وقت بھی خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر مکمل پابندی عائد تھی۔