رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم کے قیام کے 39 سال، کیا ماضی کی متحدہ کی واپسی ممکن ہے؟


سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی کی دعوے دار متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قیام کو 39 برس مکمل ہو چکے ہیں۔ جامعہ کراچی میں ایک طلبہ تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کے بطن سے جنم لینے والی مہاجر قومی موومنٹ جو اب متحدہ قومی موومنٹ ہوچکی ہے کےان لگ بھگ چار دہایوں پر مشتمل سفر نے کراچی اور شہری سندھ کی سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دہائیوں تک بڑی سیاسی جماعت رہنے والی ایم کیو ایم کو اب کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں اب یہ جماعت اپنی طبعی عمر پوری کرنے جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی نے گزشتہ چند ماہ میں کئی اہم سنگِ میل عبور کیے ہیں جس کے بعد اس میں دوبارہ روح پھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ماضی میں ایم کیو ایم سے الگ ہونے والے رہنماؤں کی بلدیاتی انتخابات سے چند روز قبل دوبارہ ایم کیو ایم میں شمولیت کو مبصرین نہ صرف کراچی بلکہ خود ایم کیو ایم کی تاریخ میں اہم سمجھ رہے تھے اور اسے پارٹی کی جانب سے کراچی کے مینڈیٹ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش قرار دے رہے تھے۔ تاہم کئی سیاسی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس انضمام کے پیچھے تحریک انصاف کا خوف اور سیاسی انجینئرنگ کا ہاتھ بھی پوشیدہ ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں الگ ہونے والے ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی نے رواں سال جنوری میں ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا۔یہ انضمام مہینوں کے مذاکرات، مشاورت اور روابط کے بعد سامنے آیا تھا۔

دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کو رواں ماہ کے شروع میں ہی برطانوی عدالت سے بھی ایک کامیابی ملی جہاں اس کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا گیا جس کے مطابق پارٹی کے بانی الطاف حسین سمیت سات افراد کو پارٹی کی جائیدادوں کے ٹرسٹ سے بے دخل کرکے لندن میں موجود انتہائی قیمتی جائیدادوں پر ایم کیو ایم پاکستان کا حق تسلیم کرلیا گیا۔

ان جائیدادوں کی مجموعی مالیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک کروڑ برطانوی پاؤنڈز کے برابر ہیں۔ ایم کیو ایم کے درخواست گزار امین الحق کا کہنا تھا کہ ان جائیدادوں کو جماعت کے لاپتا اور فوت ہوجانے والے ساتھیوں کے خاندانوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم نے 18 مارچ کو اپنا 39 واں یوم تاسیس منایا اور اس موقع پر کراچی میں ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا۔ پارٹی قیادت کے مطابق یہ جلسہ انتہائی کامیاب رہا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے یومِ تاسیس کے جلسے میں عوام نے ایم کیو ایم پر بھرپوراعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول عوام کے حقوق کی جنگ ہماری جدوجہد کا بنیادی حصہ ہے۔ایم کیو ایم اب پوری آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور جن مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیا ہے وہ اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔

متحدہ کو اب کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں ایم کیو ایم کو اب بھی اور آنے والے دنوں میں بھی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ تجزیہ کار اورسینئر صحافی مجاہد بریلوی کے خیال میں ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کا پاور شو قطعی طور پر کامیاب نہیں رہا۔ جلسے کی کامیابی اسی صورت میں مانی جاسکتی تھی جب کم از کم 10 ہزار لوگ اس میں شرکت کرتے لیکن ان کےمطابق اس جلسے میں دس ہزار سے بھی کم لوگ تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک دور تھا جب ایم کیو ایم کی ایک کال پر 50 ہزار لوگ جمع ہوتے تھے۔ لیکن لگ بھگ تمام دھڑوں کے متحد ہونے اور تمام وسائل استعمال کرنے کے باوجود بھی یہ 10 ہزار لوگ بھی جمع نہیں کرسکے۔

مجاہد بریلوی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی کوشش ہے کہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے تاکہ اپنا بیانیہ بنانے میں اسے آسانی ہو لیکن اس حقیقت سے پارٹی کے تمام قائدین بخوبی واقف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات اور پھر اس سے قبل بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے اعلان سے واضح ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کسی بھی الیکشن میں جانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

مجاہد بریلوی نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں بعض ریاستی عناصر کی پارٹی کو حمایت حاصل تھی اور ان کے پاس وسائل بھی ہوتے تھے جب کہ ایم کیو ایم افرادی قوت میں بھی خوب محنت کرتی تھی۔ البتہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ دھروں کے متحد ہونے کے باوجود الطاف حسین کو چاہنےو الے اور ان کی تقلید کرنے والے بھی موجود ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الطاف حسین کی لیڈرشپ کے مقابلے میں تمام دھڑے متحدہ ہوکر بھی کو خاص اثر ڈالنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔

ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ کی پسِ پردہ حمایت کے باوجود ایم کیو ایم کے کارکنوں کی وہ وابستگی نظر نہیں آتی۔ پہلے ایم کیو ایم کے جلسوں میں لوگ چل کر آتے تھے لیکن اب بسیں بھیجنے پر بھی لوگوں کو شہر کے مختلف علاقوں سے نکالنے میں پارٹی کو دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ ایم کیو ایم کی قیادت میں پائی جانے والی کنفیوژن اور اس کا دہرا معیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک جانب وفاقی حکومت چھوڑنے کو تیار نہیں تو دوسری جانب وفاق میں دوسری بڑی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت میں وہ اپوزیشن بینچز پر بیٹھے ہیں۔

دوسری جانب ایم کیو ایم ملک میں محض پانچ سال بعد مردم شماری کو اپنی کامیابی قرار دیتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ایسا صرف ایم کیو ایم کی جانب سے ٹھوس دلائل، عدالتی کارروائی اور پھر تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کو قائل کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

واضح رہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں کی جانب سے ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج کو مشروط قبول کرنے پر ہی ساتویں مردم شماری کی راہ ہموار ہوئی۔ دونوں جماعتیں مردم شماری کو وسائل کی تقسیم کے لیے اہم قرار دیتی ہیں۔

'ماضی کی طرح ایم کیو ایم کی واپسی مشکل ہے'

تجزیہ کار اور مبصر ڈاکٹر توصیف احمد کے خیال میں ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایم کیو ایم کی کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں پر ماضی کی سیاسی برتری واپس آسکتی ہے یا نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرکز میں موجود مخلوط حکومت سے ایم کیو ایم اپنے مفادات حاصل کرنے میں فی الحال ناکام دکھائی دیتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک جانب دیگر اتحادی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم کو بھی اپنے ووٹروں سے کڑے سوالات کا سامنا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں مہنگائی کی لہر میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب پارٹی کی تنظیم بھی کمزور ہوئی ہے اور ایم کیو ایم سندھ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارکنوں کی گمشدگی اور سیل دفاتر کا نہ کھلنا بھی ایک اور مسئلہ ہے۔ موجودہ حالات میں سرکاری ملازمتیں بھی ملنا مشکل لگتا ہے۔ یوں بہت زیادہ امکان نظر نہیں آتا کہ ماضی والی ایم کیو ایم کا دوبارہ احیا ہوسکے گا۔

اس کی ایک اور وجہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ تحریک انصاف نے بھی کراچی میں اردو بولنے والوں سمیت دیگر زبانیں بولنے والوں میں ابھی تک غلبہ پایا ہوا ہے جو آگے جا کر بڑے ووٹ بینک میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم بھی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح وہ اپنے کارکنوں کو متحرک کرے۔ انہیں پھر سے پارٹی سے والہانہ وابستگی کے لیے قائل کرے تاکہ وہ زیادہ نشستیں لے کر اقتدار کے ایوانوں میں پھر سے جاسکے۔

ان کا خیال ہے کہ ان کوششوں کے ایم کیو ایم کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جس سے وہ سابقہ پوزیشن سے بہتر درجہ حاصل کرسکتی ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کیا مقاصد ہیں اور کیا وہ واقعی ایم کیو کا سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں احیا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب فی الحال نظر نہیں آتا۔

ان کے بقول ایم کیو ایم جب تک بااختیار نہیں ہوگی وہ عوام کو اپنی جانب راغب نہیں کرپائے گی اور ان کی نظر میں اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اس لیے آنے والے انتخابات کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہیں جاسکتی کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جب سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو فعال کرتی ہیں۔ انہیں موبلائز کرتی ہیں تو اسکے اچھے نتائج نکلتے ہیں لیکن انہیں توقع نہیں کہ یہ نتائج ایم کیو ایم کے لیے کوئی بہت زیادہ حوصلہ افزا ہوں گے۔

تاہم ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت کو نئے منظرنامے میں درپیش چیلنجز کا بخوبی ادراک ہے اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی کوشش ہے کہ پارٹی کی قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں دی جائے تاکہ وہ نئے جذبے کے ساتھ اسے آگے لے کر چل سکیں اور عوام کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرسکیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG