بلوچستان کے ضلع ژوب میں ایک غار سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ لیویز حکام کا کہنا ہے کہ چاروں افراد کی لاشیں دو ماہ پرانی ہیں۔
انتظامیہ نے لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے حاصل کر کے مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں لاپتا افراد کی تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے ژوب سے برآمد ہونے والی لاشوں کے حوالے سے مزید تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
لیویز کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منگل کو ژوب کے ایک چرواہے نے مقامی لیویز اہلکاروں کو اطلاع دی تھی کہ شہر سے تقریباََ 22 کلو میٹر دور قمر دین روڈ کے قریب سر کچ کے علاقے میں ایک غار سے بدبو آ رہی ہے۔
اطلاع ملتے ہیں لیویز اہلکار موقع پر پہنچے اور غار سے ایک مسخ شدہ لاش بر آمد کی مزید تلاش کرنے پر غار سے تین اور لاشیں برآمد ہوئیں۔
لیویز حکام کا کہنا ہے کہ لاشیں بری طرح مسخ ہو چکی ہیں اس لیے ان کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق لگتا ہے کہ یہ لاشیں لگ بھگ دو ماہ پرانی ہو سکتی ہیں۔
لاشوں کو پہلے مرحلے میں شناخت کے لیے ژوب کے سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان افراد کی موت کی مزید محرکات جانچنے اور شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے نمونے حاصل کیے گئے۔
لیویز حکام کا کہنا ہے کہ پرانی لاشوں کو سرد خانوں میں زیادہ دن نہیں رکھا جا سکتا اس لیے بدھ کو رضا کاروں کی مدد سے چاروں نامعلوم افراد کی لاشوں کو ژوب کے مقامی قبرستان میں امانتاً دفن کیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل ماضی میں بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہی ہیں۔ اس حوالے بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز‘ کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ان میں اکثریت کا تعلق لاپتا افراد سے ہے۔
ضلع خضدار کے علاقے توتک سے 2014 میں ایک اجتماعی قبر سے 13 افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں جس کا پاکستان سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے ژوب میں چار افراد کی مبینہ طور پر مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں ماضی میں جتنی بھی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں ان میں سے اکثریت لاپتا افراد کی تھی۔
نصر اللہ بلوچ نے ژوب سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو سال بعد ایک بار پھر سے مسخ شدہ لاشیں ملنا باعث تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر چکے ہیں جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جتنی بھی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں وہ لاپتا افراد کی ہی ہیں۔
نصر اللہ بلوچ کے بقول اگر یہ لاشیں لاپتا افراد کی نہ بھی ہوں تب بھی یہ ایک انسانی المیہ ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ لوگ کسی کے بھائی، باپ یا شوہر ہو سکتے ہیں۔ حکومت ایسی لاشوں کو شناخت کے بغیر ہی دفنا دیتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایسی لاشوں کی شناخت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور ان کو لواحقین کے حوالے کرے تاکہ وہ خود ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کر سکیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے ژوب واقعے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے واقعات کا ایک سلسلہ جاری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ژوب سے برآمد لاشوں کی اب تک شناخت نہیں ہوئی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شناخت کہ لیے ہر قسم کے وسائل کو بروکار لائے۔ ان لاشوں کے ڈی این اے، فنگر پرنٹس اور دیگر طریقوں سے شناخت کو یقینی بنایا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کس طرح ان کی موت ہوئی ہے؟
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بلوچ اکثریت والے علاقوں میں تو طویل عرصے سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات کا سلسلہ جاری تھا۔ اب ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ پشتون اکثریتی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بھی یہ واقعات سامنے آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے جس سے لوگ بھی خوف زدہ ہو رہے ہیں۔
ژوب سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے حوالے سے صوبائی حکومت کا مؤقف جاننے کے لیے متعدد بار صوبائی مشیر داخلہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔