پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں جمعرات کی شب ایک گاڑی پر فائرنگ کے واقعے میں چار افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد ایک تعمیراتی کمپنی سے منسلک تھے۔
پولیس حکام نے بتایا ہے کہ میر علی کے علاقے میں نامعلوم افراد موٹر سائیکلوں پر سوار تھے جنہوں نے تعمیراتی ادارے کی گاڑی پر فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہو گئے۔
شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ گنڈاپور نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک مقامی قبائلی ہے اور دیگر تین افراد کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان، مریدکے اور ایبٹ آباد سے ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس واقعے کے فوری بعد علاقے میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور گھات لگا کر قتل کے اس واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
شفیع اللہ گنڈاپور نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان نے ایک بیان میں واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس سے قبل ایک اور واقعے میں تعمیراتی ادارے سے منسلک دو انجینئرز کو لگ بھگ تین ہفتے قبل نامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے تھے، جس کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیم نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں اغوا کیے جانے والے دو انجینئرز نے حکومت سے ان کی رہائی میں مدد کی اپیل کی تھی۔
قبل ازیں شمالی وزیرستان کے میر علی سب ڈویژن کی سپن وام تحصیل میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں مصروف اس تعمیراتی کمپنی کے انجینئرز اور مزدوروں پر متعدد حملے کیے جا چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
شمالی وزیرستان میں جون 2014 کے وسط میں حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف ضربِ عضب کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی تھی جو جزوی طور پر 2015 کے آخر تک جاری رہی۔
اس کارروائی کی تکمیل پر حکومت نے علاقے سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے دعوے کیے تھے، جب کہ فوجی آپریشن کے دوران نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا عمل بھی شروع کیا گیا تھا۔
تاہم اب بھی نقل مکانی کرنے والے لگ بھگ 15 ہزار خاندان بنوں اور نواحی علاقوں میں، جب کہ آٹھ ہزار سے زیادہ خاندان سرحد پار افغانستان سے واپسی کے منتظر ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقے میں 2016 سے دہشت گردی اور تشدد کے واقعات تواتر سے جاری ہیں۔
چند روز قبل نوجوانوں کی تنظیم 'یوتھ آف وزیرستان' کے عہدے داروں نے تشدد، بالخصوص گھات لگا کر قتل کی وارداتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے امن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
نوجوانوں نے بصورتِ دیگر پشاور اور اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ نوجوانوں کی تنظیم نے تین روز قبل میران شاہ میں ایک مظاہرہ بھی کیا تھا۔
حکام کے مطابق گھات لگا کر قتل کرنے کے زیادہ تر واقعات میں حکومت کے حمایت یافتہ قبائلی رہنماؤں، مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے انجینئرز اور مزدوروں یا دیگر علاقوں سے آنے والے تاجروں اور کاروباری شعبوں سے منسلک افراد کو قتل کیا جا رہا ہے۔
'یوتھ آف وزیرستان' کے عہدے داروں کے مطابق رواں سال اب تک گھات لگا کر 60 سے زیادہ افراد کو قتل کیا جا چکا ہے جب کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں گھات لگا کر قتل کرنے، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کی تعداد 300 سے بھی زیادہ ہے۔
یوتھ آف وزیرستان کے عہدے داروں نے شمالی وزیرستان میں جدید اور خودکار ہتھیاروں کی موجودگی پر سوالات اٹھائے تھے۔ کیوں کہ جون 2014 کے وسط سے 2016 کے اوائل تک جاری فوجی کارروائی میں تمام لوگوں سے اسلحہ بھی لے ل لیا گیا تھا۔