پاکستان کے صوبے خیبر پختوںخوا کے ضلع بونیر میں اتوار کو ہونے والی ایک کارروائی کے دوران مبینہ طور پر تین شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے ان شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے تھا اور یہ گزشتہ سال افغانستان سے پاکستان آئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان کی بدلتی صورتِ حال کے باعث افغانستان روپوش ہونے والے ٹی ٹی پی کے کارکن واپس پاکستان آئے ہیں۔
ان کی واپسی کے بعد خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھتہ خوری، اغوا اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی شکایات عام ہیں۔ سیکیورٹی اداروں نے ان علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن بھی تیز کر دیے ہیں۔
پولیس حکام نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع بونیر کے پہاڑی علاقے 'ایلم' میں اتوار کی شام ہونے والے کارروائی میں ہلاک کیے جانے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سوات ہی سے تھا۔
بونیر کے ضلعی پولیس آفیسر سہیل خالد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مخبروں کی اطلاع پر 'ایلم' کے پہاڑی علاقے میں پولیس کارروائی کے دوران تینوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
تینوں دہشت گردوں کا تعلق ملحقہ ضلع سوات سے تھا اور وہ چند ہفتے قبل ضلع بونیر کے تین پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھے۔
سہیل خالد نے بتایا کہ 2009 میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں زیادہ تر عسکریت پسند سرحد پار افغانستان فرار ہو گئے تھے۔
اُن کے بقول یہ لوگ پچھلے سال افغانستان سے واپس آئے تھے جس کے بعد جولائی 2019 سے بھتہ خوری دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
گزشتہ سال جولائی میں مبینہ طور پر ان دہشت گردوں کی جانب سے ضلع بونیر کے 50 سے زائد سیاسی، سماجی رہنماؤں اور کاروباری شخصیات کو بھتہ کی وصولی کے لیے خط بھی لکھے گئے تھے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد کئی سیاسی رہنما اسلام آباد اور پشاور منتقل ہو گئے تھے۔
ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل سردار حسین بابک نے دہشت گردوں کے دوبارہ منظم ہونے کا معاملہ اسمبلی میں بھی اُٹھایا تھا۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کا افغان حکومت سے یہ گلہ رہا ہے کہ اس نے افغانستان فرار ہونے والے کالعدم تحریک طالبان کے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے بجائے اُنہیں پناہ دی۔
البتہ افغان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
پاکستانی فوج نے 2009 میں سوات میں فوجی آپریشن کیا تھا جس کے بعد بڑی تعداد میں تحریک طالبان کے شدت پسند افغانستان فرار ہو گئے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جون 2018 میں افغانستان میں ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کئی جنگجو اپنے اپنے علاقوں میں واپس آ گئے تھے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کے باعث پرائیویٹ ملیشیاز یا جنگجوؤں کو پناہ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اُن کے بقول اس دوران پاکستان نے بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں سوات، وزیرستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے مراکز اور ٹھکانے تو ختم کر دیے گئے ہیں۔ لیکن اب بھی کچھ دہشت گرد یہاں موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً کارروائیاں کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔
اُن کے بقول دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔
خیبر پختونخوا کے سابق سیکرٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ کے بقول افغانستان میں پناہ لینے والے شدت پسندوں کے لیے حالات مشکل ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ امریکہ، طالبان امن معاہدے کے بعد یہ شدت پسند واپس پاکستان آ رہے ہیں جس سے لامحالہ امن و امان کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصے میں بونیر، سوات اور دیگر اضلاع میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2009 میں سوات آپریشن کے بعد ملا فضل اللہ ساتھی جنگجوؤں سمیت افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ وہاں کچھ سیاسی رہنماؤں اور ہم خیال افغان جنگجوؤں نے کنٹر اور ننگرہار میں اُنہیں پناہ دی۔
لیکن جون 2018 میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد زیادہ تر جنگجو یہاں سے بھی فرار ہو گئے جب کہ رہی سہی کسر امریکہ، طالبان امن معاہدے نے پوری کر دی۔ لہذٰا ان کے لیے زمین اب مزید تنگ ہو رہی ہے۔