حلب کی جنگ بندی میں 72 گھنٹوں کے اضافے کے باعث شام کے میدانِ جنگ بنے ہوئے اِس شمالی شہر کے مکینوں کو فراغت کے کچھ لمحات میسر آئے۔
متاثرہ خاندان اپنے گھروں کو لوٹے، اسکول دوبارہ کھلے اور دکانداروں کو گاہک دکھائی دیے۔ جنگ بندی کا نفاذ ہفتے کو مقامی وقت کے مطابق نصف شب (00.01) بجے سے شروع ہوا۔
برطانیہ میں شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے، 'سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس' کے مطابق، شہر میں کئی روز تک شدید لڑائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں تقریبا ً 300 شہری ہلاک ہوئے، جن میں 57 بچے بھی شامل تھے۔
امریکہ نے حلب میں جنگ بندی میں اضافے کا خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم، امریکہ نے کہا ہے کہ وہ وسیع تر نتائج کا خواہاں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے کہا ہے کہ امریکہ کا ہدف اُس مقام پر پہنچنا ہے جب ''پورے شام میں مخاصمانہ سرگرمیاں رکنے کی سبیل ہو، اور ہمیں جنگ بندی کے لیے نفاذ کے مقررہ اوقات کا انتظار نہ کرنا پڑے''۔
جمعے کو جاری ہونے والے بیان سے پہلے روسی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں جنگ بندی میں اضافے کی تصدیق کی تھی۔
اس سے قبل، آج ہی کے دِن، کِربی نے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر مزید مقامی جنگ بندیوں کے سمجھوتوں کی ثالثی کی جاسکتی ہے،اور امریکہ روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان کو رد نہیں کرسکتا۔
امریکہ اور روس جنگ بندی کی 'ٹاسک فورس' کے شریک سربراہ ہیں۔ روس اسد حکومت سے اپنے تعلقات استعمال کرتا ہے جب کہ امریکہ حزب مخالف پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ملک میں بے چینی کے خاتمے کی کوشش کرتا ہے۔
گذشتہ ہفتے، دونوں ملکوں نے لاذقیہ اور دمشق کے مشرقی غوطہ کے مضافات میں مقامی جنگ بندیوں کا اعلان کیا تھا، تاکہ فروری میں قومی سطح پر مخاصمانہ کارروائیوں کے خاتمے کے اعلان پر عمل درآمد کیا جاسکے۔