فرانس اور جرمنی نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بات چیت دوبارہ شروع کرے، کیونکہ تہران کی جوہری سرگرمی میں اضافے سے مغرب میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ جون میں ایران کے صدارتی انتخابات کی وجہ سے ان مذاکرات میں تعطل آ گیا تھا۔
فرانس کے وزیرِ خارجہ یاں ایو لو دغیاں نے بدھ کے روز ایران کے نئے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے فون پر بات کی۔ فرانسیسی وزارتِ خارجہ نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا ہے کہ لو دغیاں نے واضح کیا کہ تہران کو ہنگامی طور پر مذاکرات میں دوبارہ واپس آنا چاہئیے۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان ان بالواسطہ مذاکرات کا چھٹا دور جون میں صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے ساتھ ملتوی ہو گیا تھا۔ رئیسی نے 5 اگست کو اپنا صدارتی منصب سنبھالا تھا۔
اپریل کے مہینے سے چھ عالمی طاقتیں کوشش کرتی رہی ہیں کہ تہران اور واشنگٹن اس ایٹمی معاہدے میں دوبارہ واپس آ جائیں جس سے 2018 میں سابق صدر ٹرمپ علیحدہ ہو گئے تھے اور ایران پر سخت تعزیریں عائد کر دی تھیں۔
SEE ALSO: جوہری مذاکرات میں تعطل پر خامنہ ای کی امریکہ پر تنقیدفرانسیسی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ لو دغیاں نے اپنے ایرانی ہم منصب امیر عبداللہیان سے فون پر بات چیت کے دوران مذاکرات فوری دوبارہ شروع کرنے کی اہمیت بیان کی ہے۔
لودغیان نے ایران کی ان جوہری سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا جو ایران نے اس ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی میں شروع کی ہیں جو اس نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیا تھا۔ 2018 میں امریکہ کے اس معاہدے سے الگ ہونے کے بعد تہران نے بتدریج اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافے کی کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔
ابھی تک مذاکرات دوبارہ شروع کئے جانے کا کوئی نیا نظام الاوقات طے نہیں کیا گیا۔
رائٹرز کے مطابق جولائی میں ایران کے دو سینئیر عہدیداروں نے بتایا تھا کہ رئیسی مذاکرات میں سخت مؤقف اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امیر عبداللہیان نے پیر کے روز کہا تھا کہ مذاکرات دو سے تین ماہ میں دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس عرصے کا تعین کب سے ہو گا۔ کیا اب سے یا گزشتہ ماہ نئی انتظامیہ کے کام شروع کرنے کے بعد سے۔
اس سے پہلے جرمنی نے بھی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے تہران پر دباؤ میں اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کا امکان غیر معینہ مدت تک کھلا نہیں رہ سکتا۔
گزشتہ ماہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے اقوامِ متحدہ کے نگران ادارے کی اس تصدیق پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ تہران نے پہلی مرتبہ ایسا یورینیم پیدا کیا ہے جو 20% تک خالص ہے اور اس نے یورینیم کی افزودگی کی سطح 60% تک بڑھا لی ہے۔
ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔