فرانس کا مشہور گرجا گھر مون ساں مشیل ہزار برس کا ہو گیا ہے اور اس کی ہزارویں سالگرہ کی تقریبات نومبر تک جاری رہیں گی۔ پیر کے روز ان تقریبات کا افتتاح فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے کیا۔
اس موقع پر اپنی تقریر میں صدر میکروں کا کہنا تھا کہ ہمیں مون ساں مشیل ابیی کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ان چیلنجز کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا ہے جس طرح یہ ابیی گزشتہ ہزار سال سے حالات، موسموں اور وقت کے اتار چڑھاؤ کے سامنے مضبوطی سے کھڑا ہے۔ انہوں نے یورپ کی قدیم ترین عمارتوں میں شامل اس ایبی کو فرانس کی روح قرار دیا۔
مون ساں مشیل ایک تاریخی عبادت گاہ ہی نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ اور سیاحت کا اہم مرکز بھی ہے۔ گزشتہ سال 28 لاکھ سے زیادہ سیاح اور زائرین اسے دیکھنے اور روحانی تسکین حاصل کرنے کے لیے آئے۔ یہ سیاحوں کے لیے فرانس کا تیسرا سب سے بڑا پرکشش مقام ہے۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع ایک اور قدیم گرجا گھر نوٹرےڈام بھی سیاحوں اور مسیحی عقیدت مندوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ نوٹرےڈام کی تعمیر 1163 میں شروع ہوئی تھی جو مختلف مراحل میں تقریباً آٹھ سو سال تک جاری رہی۔ اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کے لیے ہر سال دنیا بھر سے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد آتے ہیں۔
اپریل 2019 میں نوٹرےڈام میں اچانک آگ بھڑک اٹھنے سے اس کی چھت اور کئی دوسرے حصوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ان دنوں اس قدیم عمارت کو اپنی اصل شکل میں بحال کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔
مون ساں مشیل اپنے تاریخی پس منظر، محل وقوع اور تعمیر سے منسلک روایات کے لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
یہ قدیم عمارت فرانس کے دو ساحلی شہروں نارمنڈی اور برٹنی کے درمیان بحراوقیانوس کے ایک چھوٹے سے پتھریلے جزیرے پر واقع ہے۔ ساحل سے اس جزیرے تک رسائی آسان نہیں ہے اور اکثر اوقات سمندر کی تیز اور بپھری ہوئی لہریں وہاں جانے اور واپس آنے کا راستہ روک دیتی ہیں۔
مون ساں مشیل کی تعمیر سے ایک کہانی منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے سن 708 میں پتھریلے جزیرے کے قریب واقع ایک قصبے ’ایورینجز ‘کے ایک پادری ’اوبرٹ‘ کے خواب میں سینٹ مشیل آئے اور انہوں نے جزیرے پر ایک عبادت گاہ تعمیر کرنے کی ہدایت کی۔
پادری اوبرٹ نے جزیرے پر ایک گرجا گھر کی بنیاد رکھی جسے انہوں نے مون ساں مشیل کا نام دیا۔ اس سے پہلے یہ جزیرہ مون ٹونبے کے نام سے جانا جاتا تھا۔ عبادت گاہ کی تعمیر کے بعد اس کی شہرت بڑھنا شروع ہوئی اور سن 966 تک یہ جگہ مون ساں مشیل ایبی کے نام سے مشہور ہو چکی تھی۔ زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر وہاں نئی تعمیرات کی گئیں اور اس کے اردگرد مضبوط فصیل بنائی گئی۔تعمیرات کا یہ سلسلہ سولہویں صدی تک جاری رہا۔
ایبی ایک ایسی عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے جہاں راہبوں اور راہباؤں کی رہائش کا بھی بندوبست ہو تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ عبادت کر سکیں۔ جب کہ کیتھڈرل سے مراد وہ جگہ ہے جہاں لوگ عبادت کے لیے جاتے ہیں۔
گیارہویں صدی اور اس کے بعد کا دور یورپ کے لیے ابتلا کا دور تھا۔ اس دوران بڑے پیمانے پر جنگیں ہوئیں جس سے یورپ کے اکثر علاقے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان میں سینٹ مشیل ایبی بھی شامل تھا، جس کی دولت، طاقت اور شہرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اس خطے میں جنگوں کے دوران کئی حکمرانوں نے ایبی کی حمایت حاصل کرنا اور مخالفت کی صورت میں اسے دبانا اور سبق سکھانا ضروری سمجھا۔
انقلاب فرانس کے دوران مون ساں مشیل ایبی کو بند کر کے راہبوں کو وہاں سے نکال دیا گیا اور اس مشہور عبادت گاہ کو ایک قید خانے میں تبدیل کر دیا گیا جہاں خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ اس قلعہ نما عمارت میں عموماً 600 سے زیادہ قیدیوں کو رکھا جاتا رہا ۔ قید خانے کی علامتیں اور نشانیاں آج بھی وہاں دیکھی جا سکتی ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز بنتی ہیں۔
ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ اس عمارت کے کچھ حصے گیارہویں صدی سے ہی قید خانے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ عمارت کے تہہ خانوں میں ایسی علامتیں بھی موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں قیدیوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔
1863 میں قید خانہ بند کر دیا گیا، لیکن ایبی کے لیے مشکلات ختم نہ ہو سکیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1940 میں جرمن فوجوں نے اس جزیرے پر قبضہ کر لیا اور بلند محل وقوع کے پیش نظر اس عمارت کو دشمن فورسز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
مون ساں مشیل ایبی تقریباً 240 ایکٹر رقبے پر محیط ہے۔ اس عمارت میں بہت سے کمرے اور ہال موجود ہیں۔ عمارت کے مرکزی دروازے سے بلند ترین حصے تک پہنچنے کے لیے لگ بھگ 900 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ تاہم یہ سیڑھیاں عمارت کے مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہیں۔
عمارت گوتھک فن تعمیر کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کی چوٹی پر سینٹ مشیل کا مسجمہ نصب ہے۔ مسیحی مذہب میں سینٹ کو ایک برگزیدہ روحانی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان میں سینٹ مشیل کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔
مون ساں مشیل ایبی پر درجنوں فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں اور بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ ایبی بہت سے فرانسیسیوں کے لیے روحانیت کے حصول کا ایک مقام ہے اور بہت سے لوگ اپنی خواہشات کے حصول کے لیے یہاں حاضری دیتے ہیں، جن میں سیاست دان بھی شامل ہیں۔ 2007 میں سابق صدر نکولس سرکوزی نے اپنی صدارتی مہم کا آغاز یہیں سے کیا تھا اور ان سے قبل سابق صدر فرانسوا ں متراں بھی اپنی سیاسی مہم کے لیے اس عمارت کو علامتی طور پر استعمال کر چکے ہیں۔
فرانس کی حکومت مون ساں مشیل ایبی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے اور اسے اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کے لیے گزشتہ 15 برسوں سے کام کر رہی ہے جس پر اب تک تقریباً ساڑھے تین کروڑ ڈالر صرف کیے جا چکے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تاریخی عمارت کو سب سے زیادہ خطرہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے ہے۔