افغانستان میں طالبان حکام نے تصدیق کی ہے کہ شمالی صوبے بدخشاں میں کار بم دھماکے میں ڈپٹی گورنر سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
حکام کے مطابق واقعہ منگل کی صبح صوبائی دارالحکومت فیض آباد میں اس وقت پیش آیا جب نائب گورنر نثار احمد احمدی اپنے ڈرائیور کے ہمراہ دفتر جا رہے تھے۔ اس دوران ایک کار سوار بمبار نے بارود سے بھری گاڑی اُن کی گاڑی سے ٹکرا دی۔
سرکاری ترجمان معز الدین احمدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے میں چھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ تاہم کسی گروپ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
افغان صوبے بدخشاں کی سرحدیں پاکستان، چین اور تاجکستان سے بھی ملتی ہیں۔ اس سے قبل دسمبر میں کار بم حملے میں بدخشاں کے پولیس چیف بھی مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش خراسان نے قبول کی تھی۔
افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بہت سے طالبان رہنما اور حکومتی عہدے دار خود کش حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں مارے جا چکے ہیں۔ ان واقعات میں سے بیشتر کی ذمے داری داعش ہی قبول کرتی رہی ہے۔
اس سے قبل مارچ میں صوبہ بلخ کے گورنر محمد داؤد مزمل ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔ داؤد مزمل پاکستان کی سرحد سے ملحقہ صوبے ننگرہار کے بھی گورنر رہ چکے تھے جہاں انہوں نے داعش کے خلاف کریک ڈاؤن کی نگرانی کی تھی۔
افغان طالبان، داعش کو افغانستان کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مختلف کارروائیوں میں داعش کے جنگجوؤں کی ہلاکت کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ تاہم 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد شدت پسند گروپ کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
داعش نے 2015 میں ننگرہار سے افغانستان میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں داعش کارروائیاں کرتی رہی ہے۔
افغان طالبان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ انہوں نے مختلف آپریشنز میں داعش کا قلع قمع کر دیا ہے، لیکن اس کے باوجود شدت پسند گروپ کے حملے جاری ہیں۔