" می ٹو" تحریک کے پانچ سال بعد بھی ، فرانسیسی معاشرہ 'اپنے تمام شعبوں میں جنسی تعصب پر مبنی رویوں کا شکار ہے،" یہ بات فرانسیسی حکومت کے صنفی مساوات کے نگران ادارے نے پیر کو اپنی سالانہ رپورٹ میں کہی ہے، جس سے خواتین کی طرف سے رپورٹ کردہ جنسی تشدد کی شرح میں اضافے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
خواتین اور مردوں کے درمیان مساوات کے لیے اعلیٰ کونسل نے قومی سطح پرایک ہنگامی منصوبے کا مطالبہ کیا تاکہ خواتین کے خلاف جنسی تفریق پر مبنی بڑے، پرتشدد اور بعض اوقات جان لیوا واقعات کو روکا جا سکے۔
کونسل کی طرف سے کیے گئے ایک سروے میں، ایک تہائی خواتین نے بتایا کہ ان کے پارٹنرز نےجسمانی تعلقات میں ان کی رضا کو نظر انداز کیا ۔ کونسل نے کہا کہ سروے میں شامل ہر سات میں سے تقریباً ایک خاتون نے کہا کہ مردوں نے ان کے ساتھ زبردستی کی ، اور اتنی ہی تعداد نے بتایا کہ ان کے پارٹنر نے انہیں ماراپیٹا اور دھکے دیے۔
کونسل کی صدر، سلوی پیئربروسلیٹ نے، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل (ٹیکنالوجی)پر موجود فحش مواد کے زیر اثر نوجوان مردوں میں خواتین کی طرف جنسی عصبیت یا تفریق کے رجحان کےبارے میں خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ جنسی تعصب کا چھوٹی عمر سے ہی مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کونسل بدھ کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کو اپنے نتائج پیش کرے گی۔
SEE ALSO: پاکستان میں ہراسانی سے متعلق قوانین: 'یہاں الزام لگانے والے کو اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے'پیری بروسلیٹ نے براڈکاسٹر فرانس انٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر نوجوان، ڈیجیٹل طور پر دنیا بھر میں تشدد کے ان مناظر کو دیکھتے ہوئے پرورش پاتے ہیں جن میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تعلقات میں مرد مکمل طور پر حاوی اور عورتیں مغلوب نظر آتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیکس ازم یا جنسی تفریق پر مبنی رویوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بہت مشکل ہے ۔ کونسل کے مجوزہ 10 نکاتی لائحہ عمل میں آن لائن مواد پرسخت ضابطے کا مطالبہ شامل ہے۔ دیگر تجاویز میں کام کی جگہوں پر صنفی امتیاز کے خلاف تربیت کو لازمی قرار دینا اور ایسے اشتہارات پر پابندی لگانا شامل ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ بچوں کے کچھ کھلونے لڑکوں کے لیے ہیں اور کچھ صرف لڑکیوں کے لیے۔
SEE ALSO: 'می ٹو' تحریک: 'میرے پاس کھونے کو اب بچا ہی کیا ہے'فرانس نے صنفی برابری کے بعض شعبوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ وزیر اعظم الزبتھ بورن اس عہدے پر فائز ہونے والی دوسری خاتون ہیں اور جون سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی پہلی خاتون صدر یال براؤن پیویٹ ہونگی۔
میکرون حکومت نے گھریلو تشدد کے خلاف پولیس کے وسائل میں بھی اضافہ کیا ہے اور 25 سال کی عمر تک کی تمام خواتین کو مفت برتھ کنٹرول کی پیشکش کی ہے۔
قانون ساز فرانس میں اسقاط حمل کے حقوق کی آئینی ضمانت دینے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد تولیدی حقوق میں کسی بھی طرح کی کمی کو روکنا شامل ہے،جیسا امریکہ سمیت کچھ ملکوں میں ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پھر بھی، مساوات کونسل نے فرانس میں خواتین کی مجموعی صورت حال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔ کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانس میں جنسی تعصب پر مبنی رویہ گھٹ نہیں رہاہے۔ اس کے برعکس، اس کے کچھ انتہائی پرتشدد مظاہر بدتر ہو رہے ہیں اور نوجوان نسل سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
اس رپورٹ کی معلومات ایجنسی فرانس پریس کی معلومات پر مبنی ہیں۔