بتایا جاتا ہے کہ القاعدہ سے منسلک مذہبی شدت پسند جنھوں نے گذشتہ سال ملک کے شمال پر قبضہ جما لیا تھا، اب جنوب میں واقع ملک کے دارالحکومت بماکو کی طرف پسپا ہو رہے ہیں
واشنگٹن —
فرانس کے وزیر دفاع ژاں وی لے دیان نے کہا ہے کہ فرانس کا ہدف مالی کو اسلام پرست شدت پسندوں کے چنگل سے مکمل طور پر خالی کرانا ہے۔
لے دیان نے اتوار کے روز فرانسیسی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اُن کی فوج مزاحمت کے تمام ٹھکانوں کو ختم کرائے بغیر واپس نہیں لوٹے گی۔
فرانسیسی فوجیں گذشتہ ہفتے حکومتِ مالی کی درخواست پر افریقہ کےشمال میں واقع اِس ملک میں داخل ہوئی تھیں۔
القاعدہ سے منسلک مذہبی شدت پسند جنھوں نے گذشتہ سال ملک کے شمال پر قبضہ جما لیا تھا، اب جنوب میں واقع ملک کے دارالحکومت بماکو کی طرف پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔
کئی روز سے ہڑتالوں اور اسلام پسندوں کی طرف سے جوابی حملوں کے بعد، فرانس کی فوج نےاپنی کارروائی کی شدت میں کمی کردی ہے، اور اب وہ شمال کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔
فرانس کے لیفٹیننٹ کرنل امائنول ڈوسر نے کہا ہے کہ فوجیں اُن سپاہیوں کے ساتھ رابطہ کرنے پر دھیان مرکوز کر رہی ہیں، جو پہلے ہی نیونو اور سوارے کے قصبوں میں موجود ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی افریقی سروس کے نامہ نگار، ادریسا فال، جو اِس وقت سوارے میں موجود ہیں، شہر کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا ہے کہ جنگ کے اس ماحول میں قصبے میں سناٹا چھایا ہوا ہے، اورسڑکوں پر فرانسیسی اور مالی کی فوجیں نظر آتی ہے۔
جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے، سوارے اپنے ہوائی اڈے کی وجہ سے بھی اہم ہے جسے شمال کی طرف مزید فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
لے دیان نے اتوار کے روز فرانسیسی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اُن کی فوج مزاحمت کے تمام ٹھکانوں کو ختم کرائے بغیر واپس نہیں لوٹے گی۔
فرانسیسی فوجیں گذشتہ ہفتے حکومتِ مالی کی درخواست پر افریقہ کےشمال میں واقع اِس ملک میں داخل ہوئی تھیں۔
القاعدہ سے منسلک مذہبی شدت پسند جنھوں نے گذشتہ سال ملک کے شمال پر قبضہ جما لیا تھا، اب جنوب میں واقع ملک کے دارالحکومت بماکو کی طرف پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔
کئی روز سے ہڑتالوں اور اسلام پسندوں کی طرف سے جوابی حملوں کے بعد، فرانس کی فوج نےاپنی کارروائی کی شدت میں کمی کردی ہے، اور اب وہ شمال کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے۔
فرانس کے لیفٹیننٹ کرنل امائنول ڈوسر نے کہا ہے کہ فوجیں اُن سپاہیوں کے ساتھ رابطہ کرنے پر دھیان مرکوز کر رہی ہیں، جو پہلے ہی نیونو اور سوارے کے قصبوں میں موجود ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی افریقی سروس کے نامہ نگار، ادریسا فال، جو اِس وقت سوارے میں موجود ہیں، شہر کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا ہے کہ جنگ کے اس ماحول میں قصبے میں سناٹا چھایا ہوا ہے، اورسڑکوں پر فرانسیسی اور مالی کی فوجیں نظر آتی ہے۔
جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے، سوارے اپنے ہوائی اڈے کی وجہ سے بھی اہم ہے جسے شمال کی طرف مزید فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔