واشنگٹن —
امریکہ پر فسکل کلف کا خطرہ تو ٹل گیا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ آخری وقت میں کانگریس کا امیروں پر ٹیکس بڑھانے کا معاہدہ محض ایک عارضی حل ثابت ہوگا۔ جلد ہی صدر باراک اوباما اپنی دوسری میعاد ِ صدارت کے لیے ایک ایسے وقت میں حلف اٹھائیں گے جب امریکہ شدید مالیاتی مسائل کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب مشکل سے فسکل کلف یا ’مالیاتی چوٹی‘ کا خطرہ ٹالا گیا ہے۔ امریکہ ایک اور مالیاتی مصیبت کا شکار بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
امریکی حکومت اب تک 16.4 ٹریلین ڈالر کی رقم قرضے کی مد میں لے چکی ہے۔ اور کانگریس کی وضع کردہ پابندی امریکی حکومت کو اس سے زیادہ رقم قرضے کی صورت میں لینے کی اجازت نہیں دیتی۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فروری کے وسط تک امریکی حکومت کے پاس اخراجات پورا کرنے کے لیے رقم ناکافی پڑ جائے گی۔
امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر قرضوں کا حجم بڑھانے کے بدلے میں حکومتی اخراجات میں کٹوتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن صدر اوباما کے نزدیک یہ طرز ِ عمل غیر ذمہ دارانہ ہے۔ صدر اوباما کہتے ہیں، ’’اگر کانگریس میں ریپبلکنز امریکی بلز، سوشل سیکورٹی چیکس اور فوجیوں کو دینے والی رقم کی ادائیگی وقت پر کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ ہم اپنے فوجیوں کو تنخواہیں نہ دے سکیں یا پھر ان لوگوں کی مدد نہ کر سکیں جو چھوٹے کاروبار چلاتے ہیں‘‘۔
یہ خبر کہ امریکی حکومت لیے گئے قرضوں پر سود ادا نہیں کر سکے گی، عالمی مالیاتی بازاروں پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ فرینک ریلی ایک فنائنشل ایڈوائزر ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’اگر آپ کاروبار چلاتے ہیں اور آپ نے سو نئے لوگ بھرتی کرنے ہوں لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم کہ قرضوں کا بڑھتا حجم کہاں تک جائے گا؟ تو آپ یقینا صورتحال واضح ہونے کا انتظار کریں گے۔ اس بارے میں کانگریس کا رویہ سمجھ آتا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ آپ گھوڑے کو ایڑھ لگائیں اور اسے بھاگنے نہ دیں‘‘۔
انہی مالی مشکلات کی وجہ سے امریکہ کو 2011 میں اپنی کریڈٹ ریٹنگ میں ایک درجہ کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
گو کہ سرمایہ کار ابھی بھی امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن امریکی بجٹ پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنطیم سے منسلک مارک گولڈ ون کا کہنا ہے کہ امریکی کریڈٹ ریٹنگ میں مزید کوئی کمی اس رجحان میں کمی لا سکتی ہے۔ ان کے الفاظ میں، ’’ٹرپل اے سے ڈبل اے کی درجہ بندی میں جانے سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کریڈٹ کی درجہ بندی میں مزید کسی کمی کے بعد کیا ہوگا؟‘
امریکی ایوان ِ نمائندگان کے سپیکر جان بینر مانتے ہیں کہ قرضوں کا حجم نہ بڑھانے کی صورت میں برے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی جانچ پڑتال کے بغیر بے دریغ حکومتی اخراجات کا نتیجہ بھی برا ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب مشکل سے فسکل کلف یا ’مالیاتی چوٹی‘ کا خطرہ ٹالا گیا ہے۔ امریکہ ایک اور مالیاتی مصیبت کا شکار بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
امریکی حکومت اب تک 16.4 ٹریلین ڈالر کی رقم قرضے کی مد میں لے چکی ہے۔ اور کانگریس کی وضع کردہ پابندی امریکی حکومت کو اس سے زیادہ رقم قرضے کی صورت میں لینے کی اجازت نہیں دیتی۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فروری کے وسط تک امریکی حکومت کے پاس اخراجات پورا کرنے کے لیے رقم ناکافی پڑ جائے گی۔
امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر قرضوں کا حجم بڑھانے کے بدلے میں حکومتی اخراجات میں کٹوتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن صدر اوباما کے نزدیک یہ طرز ِ عمل غیر ذمہ دارانہ ہے۔ صدر اوباما کہتے ہیں، ’’اگر کانگریس میں ریپبلکنز امریکی بلز، سوشل سیکورٹی چیکس اور فوجیوں کو دینے والی رقم کی ادائیگی وقت پر کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ ہم اپنے فوجیوں کو تنخواہیں نہ دے سکیں یا پھر ان لوگوں کی مدد نہ کر سکیں جو چھوٹے کاروبار چلاتے ہیں‘‘۔
یہ خبر کہ امریکی حکومت لیے گئے قرضوں پر سود ادا نہیں کر سکے گی، عالمی مالیاتی بازاروں پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ فرینک ریلی ایک فنائنشل ایڈوائزر ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’اگر آپ کاروبار چلاتے ہیں اور آپ نے سو نئے لوگ بھرتی کرنے ہوں لیکن آپ کو یہ نہیں معلوم کہ قرضوں کا بڑھتا حجم کہاں تک جائے گا؟ تو آپ یقینا صورتحال واضح ہونے کا انتظار کریں گے۔ اس بارے میں کانگریس کا رویہ سمجھ آتا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ آپ گھوڑے کو ایڑھ لگائیں اور اسے بھاگنے نہ دیں‘‘۔
انہی مالی مشکلات کی وجہ سے امریکہ کو 2011 میں اپنی کریڈٹ ریٹنگ میں ایک درجہ کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
گو کہ سرمایہ کار ابھی بھی امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن امریکی بجٹ پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنطیم سے منسلک مارک گولڈ ون کا کہنا ہے کہ امریکی کریڈٹ ریٹنگ میں مزید کوئی کمی اس رجحان میں کمی لا سکتی ہے۔ ان کے الفاظ میں، ’’ٹرپل اے سے ڈبل اے کی درجہ بندی میں جانے سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کریڈٹ کی درجہ بندی میں مزید کسی کمی کے بعد کیا ہوگا؟‘
امریکی ایوان ِ نمائندگان کے سپیکر جان بینر مانتے ہیں کہ قرضوں کا حجم نہ بڑھانے کی صورت میں برے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی جانچ پڑتال کے بغیر بے دریغ حکومتی اخراجات کا نتیجہ بھی برا ثابت ہو سکتا ہے۔