پاکستان میں آزادیٔ صحافت بہت محدود ہے: فریڈم ہاؤس

فائل

امریکی تھنک ٹینک 'فریڈم ہاؤس' نے سال 2019ء کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستانی صحافت کو فروغ کی جانب گامزن ہونے کا درجہ دیا گیا ہے۔

تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں آزادی صحافت کا ماحول ''انتہائی محدود'' ہے؛ اور یہ کہ اس وقت ایک بِل زیر غور ہے جس کی رو سے آن لائن صحافیوں اور اداروں کو خبروں کے اجرا کے لائسنس حاصل کرنا ہوں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی اہل کاروں نے مبینہ طور پر ممنوعہ موضوعات کی رپورٹنگ سے متعلق صحافیوں کو انتباہ جاری کیا ہے۔ ان موضوعات میں فوج پر زیادتی کے الزام کو ضبط تحریر میں لانے کا معاملہ شامل ہے یا پھر اخباری نمائندوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ مخصوص سیاسی معاملات کی رپورٹنگ کس طرح کی جائے۔

’وائس آف امریکہ ‘سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ایم ضیاالدین نے کہا ہے کہ مجوزہ بِل میڈیا کو ضابطے میں لانے کے لیے نہیں بلکہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے وضع کیا جا رہا ہے جو ان کے نزدیک درست نہیں۔

انھوں نے کہا کہ "اکثر و بیشتر صحافتی معاملات میں نادیدہ ہاتھ ملوث نظر آتے ہیں۔"

بقول ایم ضیا الدین، "آن لائن صحافت پر پہلے ہی کئی نوع کی پابندیاں عائد ہیں جب کہ نگرانی کے عمل کی وجہ سے نہ صرف آن لائن صحافی اور میڈیا ادارے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ مالکان کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ پہلے ہی صحافتی اداروں کی معیشت خراب ہونے کے نتیجے میں 3000 سے 4000 صحافی بے روزگار ہو چکے ہیں۔"

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ "حکومتی ترجمان کے علاوہ کسی دیگر ادارے کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ صحافت سے متعلق کوئی ہدایت نامہ جاری کرے۔"

نامور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ آن لائن صحافیوں کی تفتیش کے معاملے پر 'ایف آئی اے' کو شکایات رہی ہیں کہ ادارے کو کئی قسم کے مسائل درپیش آتے ہیں۔ اس ضمن میں 2016ء کے ’سائبر کرائم کنٹرول ایکٹ‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے، اور یہ کہ درکار ترامیم پارلیمان ہی کا استحقاق ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مظہر عباس نے کہا کہ چند ماہ قبل میڈیا پر دفاعی امور کے تجزیہ کاروں کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا تقاضا ضرور سامنے آیا تھا۔ لیکن یہ تجویز واپس لی جا چکی ہے؛ اور ڈیفنس کے وہی تجزیہ کار میڈیا پر آ رہے ہیں جو اس سے پہلے آیا کرتے تھے۔

سینئر تجزیہ کار عامر ضیا نے کہا کہ ’فریڈم ہاؤس‘ جیسے ادارے، پاکستان اور اس کے اداروں کو مبینہ طور پر "بدنام کرنے کی غرض سے حقائق کے برعکس آدھا سچ بول کر یک طرفہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔"

انھوں نے کہا کہ آزادی صحافت تخیلاتی قسم کی 'آئیڈیل' چیز نہیں ہوا کرتی اور ہر ملک کو لاحق چیلنج مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔

عامر ضیا نے دعویٰ کیا کہ "پاکستانی صحافت کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ پاکستان میں سول، فوجی اور سیاسی جماعتوں پر کھل کر تنقید کی جاتی ہے، اور اب تو چاند دیکھنے کے معاملے پر مولویوں تک کو بھی کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں پاکستان نے بیش بہا جانی و مالی قربانیاں دی ہیں اور بیرونی ادارے پاکستان کو توازن کا درس تو دیتے ہیں" لیکن بقول ان کے "ان کا اپنا توازن درست نہیں۔"

’فریڈم اینڈ دی میڈیا 2019ء‘ کے عنوان سے رپورٹ میں بنگلہ دیش اور نیپال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں آزادی صحافت کو فروغ اور تقویت دینے کی ضرورت ہے۔

'فریڈم ہاؤس' نے بتایا ہے کہ بھارتی سیاسی جماعتیں جن میں اقلیتی جماعتیں بھی شامل ہیں، سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور ایڈٹ کی گئی تصاویر کے ذریعے "ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث پائی گئیں" اور یہ کہ "انتخابات جیتنے کے لیے ان کی جانب سے ہر حربہ آزمایا گیا۔" انتخابات کے دوران حکام نے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور وائبر کو بلاک کیے رکھا۔

'فریڈم ہاؤس' نے کہا ہے کہ آن لائن میڈیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے، دنیا بھر کی حکومتیں خاص طور پر آن لائن شعبے میں سخت قوانین اور آڈیو ویژوول ضابطے لاگو کر رہی ہیں۔ چین میں حکومت کی جانب سے نجی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ سینسر کے بغیر اطلاعات کی دستیابی کو روکیں، اور اپنے پلیٹ فارمز پر موجود باقی ماندہ مواد کی کڑی نگرانی کریں۔

رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک کی درجہ بندی صفر سے چار کے اسکیل پر کی گئی ہے۔ اس میں صفر بدترین اور چار بہترین کی نشاندہی کرتا ہے۔ صفر میں چین، روس، یمن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سوڈان شامل ہیں؛ پاکستان، بنگلہ دیش، قطر، ایران، عراق، عمان، ترکی اور مصر کیٹگری ایک میں؛ افغانستان، بھارت، سری لنکا، بھوٹان دو میں؛ اسرائیل، جاپان، اٹلی، آسٹریا، یونان اور ملائیشیا تین میں؛ جب کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، سویڈن، سوٹزرلینڈ اور ناروے کیٹگری چار میں شامل ہیں۔