|
فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹرز سات جولائی کو رن آف مرحلے میں ووٹ ڈالیں گے جب کہ اب تک کے نتائج میں ملک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو برتری حاصل ہے۔
انتخابات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر فرانس میں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی قبضے کے بعد سے شاید پہلی مرتبہ دائیں بازو کی حکومت تشکیل پا سکتی ہے یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی جماعت مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر پائے۔
اب تک کے سرکاری نتائج کے مطابق مارین لوپن کے زیرِ سربراہی امیگریشن مخالف اور قوم پرست جماعت نینشل ریلی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں پہلی مرتبہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ تاہم پیچیدہ ووٹنگ سسٹم اور سیاسی صورتِ حال میں نتائج سے متعلق بے یقینی پائی جاتی ہے۔
ہوا کیا؟
اتوار کو فرانس میں الیکشن کے پہلے مرحلے میں نیشنل ریلی اور اس کے اتحادی ایک تہائی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
معتدل بائیں بازو، گرینز اور انتہائی بازو کی جماعتوں کے اتحاد نیشنل پاپولر فرنٹ کو دوسری پوزیشن حاصل ہوئی تھی اور یہ صدر میخواں کے معتدل جماعتوں کے اتحاد سے آگے تھا۔
فرانس کے انتخابی نظام کے مطابق 50 فی صد تک ووٹ حاصل کرنے والے درجنوں امیدوار منتخب ہو چکے ہیں۔ تاہم جہاں جہاں کوئی امیدوار 50 فی صد ووٹ حاصل نہیں کر پائے ہیں وہ 7 جولائی کو دوسرے مرحلے کے الیکشن میں جائیں گے۔
اب تک کے انتخابی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل ریلی آئندہ منتخب ہونے والی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ 577 نشستوں کے ایوان میں مطلوبہ اکثریت 289 نشستیں حاصل کر پائے گی یا نہیں۔
SEE ALSO: سال2024 میں دنیا کس طرح ووٹ دے رہی ہے؟فرانس کے ووٹنگ سسٹم میں کسی بھی جماعت کو ملکی سطح پر ملنے والے ووٹس کے تناسب سے نشستیں نہیں دی جاتیں بلکہ ہر قانون ساز اپنے حلقے سے منتخب ہوتا ہے۔
اب کیا ہو گا؟
نیشنل ریلی کے سیاسی حریف اسے ایوان میں واضح اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
بائیں بازو کے اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ جن حلقوں میں ان کے امیدوار تیسرے نمبر پر آئے ہیں وہاں وہ انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑنے والوں کی حمایت کے لیے ان کے حق میں اپنے امیدوار دست بردار کر دیں گے۔
صدر میخواں کی جماعت نے بھی نیشنل ریلی کا راستہ روکنے کے لیے کئی حلقوں سے اپنے امیدوار دست بردار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انتخابات میں یہ حربہ پہلے بھی استعمال ہو چکا ہے جب لوپن کی پارٹی اور اس کے پیش رو نیشنل فرنٹ کا راستہ روکا گیا تھا۔ لیکن اس وقت انتہائی دائیں بازو کی اس سیاسی قوت کو فرانس میں قبولیت حاصل نہیں تھی۔ اس کے برخلاف اب فرانس میں نیشنل ریلی کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو چکا ہے۔
دائیں بازو کی مقبولیت کیوں بڑھ رہی ہے؟
فرانس دنیا کی بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہے۔ یہ دنیا کی ایک بڑی سفارتی اور عسکری طاقت بھی ہے۔ لیکن فرانسیسی ووٹرز کو اس وقت مہنگائی اور آمدن میں گراوٹ جیسے مسائل کا سامنا ہے جسے وہ گلوبلائزیشن میں اپنی پس ماندگی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لوپن کی پارٹی فرانس کے کئی مسائل کے لیے تارکینِ وطن کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔ اس پارٹی نے موجودہ ملکی حالات میں ووٹرز کی بے چینی کا اندازہ لگاتے ہوئے ملک گیر سطح پر ایک سپورٹ سسٹم تشکیل دیا۔
خاص طور پر نینشل ریلی نے چھوٹے شہروں، قصبوں اور کسان طبقے سے اپنے رابطے بڑھائے۔ یہ طبقات سمجھتے ہیں کہ میخواں اور پیرس کی سیاسی کلاس ان لوگوں سے کٹ کر اپنی سیاست کرتے ہیں۔
کوئی اکثریت حاصل نہ کر سکا تو کیا ہو گا؟
اگر صدر میخواں کے اعتدال پسند اتحاد کے علاوہ کوئی نیشنل ریلی یا کوئی اور سیاسی قوت اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو صدر کو انہی کا وزیرِ اعظم مقرر کرنا پڑے گا۔
ایسی صورتِ حال کو فرانس میں ’کوہیبیٹیشن‘ کہا جاتا ہے جس میں حکومت صدر کے منصوبوں کے برخلاف اپنی پالیسیاں نافذ کر سکے گی۔
فرانس کی جدید جمہوری ریاست میں اب تک تین مرتبہ ایسی حکومتیں بن چکی ہیں۔ ان میں سے آخری حکوت 1997 میں بنی تھی جب قدامت پسند صدر یاک شیراک کو سوشلسٹ وزیرِ اعظم لیونل جوسپن کے ساتھ کام کرنا پڑا تھا۔
فرانس میں وزیرِ اعظم پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ وہی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے قانون سازی متعارف کرانے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔
کو ہیبیٹینش کی حکوت میں صدر کی پوزیشن کمزور ضرور ہوتی ہے لیکن اسے خارجہ امور، یورپی امور اور دفاع وغیرہ سے متعلق معاہدوں جیسے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ فرانس میں صدر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ ہوتا ہے اور اسی کے پاس جوہری ہتھیاروں کے خفیہ کوڈز ہوتے ہیں۔
الیکشن اہم کیوں ہے؟
فرانس کی پارلیمنٹ میں قانون سازی کے اعتبار سے ایوانِ زیریں یا قومی اسمبلی زیادہ بااختیار ہے۔ کسی بھی قانون سازی میں اس کی رائے سینیٹ پر مقدم ہوتی ہے جہاں اس وقت قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔
میخواں کو 2027 تک صدر رہنے کا مینڈیٹ حاصل ہے اور وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم ایک کمزور فرانسیسی صدر کو عالمی اسٹیج پر پیچیدہ صورتِ حال کو سامنا ہو سکتا ہے۔
ماضی میں کو ہیبیٹیشن کے ادوار میں خارجہ اور دفاعی امور کے لیے صدر کا اختیار ’طے شدہ‘ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان پر اختلاف کی صورت میں دونوں کے درمیان سمجھوتے بھی ہوتے رہے ہیں۔
تاہم آج انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کے سیاسی اتحاد ان امور پر میخواں سے شدید نوعیت کا اختلاف رکھتے ہیں۔ اس لیے دونوں اتحادوں میں سے کسی ایک کی بھی کامیابی کے بعد بننے والی حکومت اور صدر کے درمیان تعلقات کشیدہ رہیں گے۔
اگر انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کو اکثریت حاصل ہوتی ہے تو اس کے لیڈر جورڈن برڈیلا ممکنہ طور پر اس کے وزیرِ اعظم ہوں گے۔
برڈیلا کا کہنا ہے کہ اگر وہ وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو آئین اور صدر کے کردار کا احترام کریں گے۔ لیکن اپنی پالیسوں کے نفاذ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
وہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں وزیرِ اعظم بننے کی صورت میں وہ فرانسیسی فوجی یوکرین بھیجنے کی مخالفت کریں گے۔ میخواں بھی اس امکان کو مسترد نہیں کرتے۔ برڈیلا یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے دور تک مار کرنے والے میزائلوں کی فراہمی سے بھی انکار کردیں گے۔
اگر کسی کو اکثریت نہیں ملی؟
انتخابات میں اگر کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتی ہے تو صدر سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی جماعت کے امیدوار کو وزیرِ اعظم نامزد کر سکتے ہیں۔ 2022 میں صدر میخواں کی اعتدال پسند جماعت کی حکومت بھی اسی طرح تشکیل پائی تھی۔
نیشنل ریلی کا کہنا ہے کہ وہ ایسی صورت میں حکومت نہیں بنائیں گے۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر وہ حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو ان کی مخالف سیاسی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لا کر اسے گرا دیں گی۔
صدر دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا ایک اتحاد بھی بنا سکتے ہیں لیکن موجودہ سیاسی حالات میں یہ قابلِ عمل نظر نہیں آتا۔
ایک اور آپشن یہ بھی ہے کہ کسی جماعت کو اکثریت نہ ملنے کی صورت میں ’ماہرین کی حکومت‘ تشکیل دے دی جائے۔ لیکن اس حکومت کو بھی پارلیمنٹ کی اکثریت کی حمایت درکار ہو گی۔ ایسی حکومت بن بھی جائے تو یہ بڑے پیمانے پر اصلاحات نہیں کر پاتی بلکہ روزمرہ امور نمٹانے تک محدود رہتی ہے۔
اگر انتخابات کے بعد سیاسی مذاکرات طول پکڑ جاتے ہیں اور جولائی اگست میں ہونے والے پیرس اولمپکس بھی آ پہنچتے ہیں تو میخواں مزید فیصلہ سازی کو ملتوی کر کے ایک عبوری حکومت بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔
اس تحریر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔