|
انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابی سال، 2024 کی پہلی ششماہی میں منعقدہ انتخابات میں عالمی جمہوریت کے لیے ملے جلے نتائج سامنےآئے ہیں ۔
کچھ ممالک یک جماعتی ڈکٹیٹر شپ کی جانب بڑھے کیوں کہ اقتدار میں آنے والوں نے اپنی طاقت کو مستحکم کیا۔ کچھ ملکوں کے انتخابات میں پہلے سے طے شدہ نتائج کی جھلک دکھائی دی تاہم کچھ ملکوں میں عوام نے بیرونی دباؤ کے سامنے غیر متوقع مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔
جنوبی ایشیا میں انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش میں 7جنوری کو ہونے والے انتخابات مرکزی حزب اختلاف، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی شرکت کے بغیر منعقد ہوئے، جو ایک طویل عرصے سے انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کر رہی تھی۔
بی این پی کے بائیکاٹ نے حکمران جماعت عوامی لیگ کی فتح اور شیخ حسینہ کی پانچویں مدت کو یقینی بنایا، جس سے وہ بنگلہ دیش کی سب سے طویل مدت تک فائز رہنے والی وزیر اعظم بن گئیں۔
انتخابات سے قبل کچھ بدامنی کے باوجود، ووٹنگ تشدد کے کسی بڑ ے واقعے یا بے ضابطگیوں کے بغیر انجام پائی۔ تاہم، بی این پی کے بہت سے رہنماؤں اور حامیوں کو جیلوں میں ڈالے جانے اور کسی بڑی اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باعث امریکہ اور برطانیہ ان انتخابات کو "آزادانہ اور منصفانہ قرار نہ دینے پر اور میڈیا کے کچھ ذرائع یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ بنگلہ دیش مؤثر طریقے سے یک۔ جماعتی ملک بن گیا ہے ۔
پاکستان
پاکستان میں انتخابات بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کی خبروں سے متاثر ہوئے۔ جن میں یہ الزامات سامنے آئے کہ طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پاکستان مسلم لیگ نون کی جماعت کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں مداخلت کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جماعت نے،پارٹی کے سر براہ ،سابق وزیر اعظم عمران خان کے جیل جانے اور ان کے انتخابی نشانات پر پابندی سمیت ،متعدد مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود غیر متوقع طور پر ٹھوس نتائج دکھائے۔ اس کے امیدواروں نے پارلیمنٹ کی 226 نشستوں میں سے 93 پر کامیابی حاصل کی۔
کیوں کہ انہیں آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا اس لیے پی ٹی آئی متناسب طور پر مخصوص 60 نشستوں میں سے کسی ایک کا بھی دعویٰ نہ کر سکی اور اس طرح پاکستان مسلم لیگ نون کو پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت حاصل ہو گئی۔
نواز شریف کی پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی ہے، جو اس سے قبل اس کی سب سے بڑی حریف تھی۔
بھارت
اگرچہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کی پارلیمنٹ میں بدستورسب سے بڑی جماعت ہے تاہم اسے اپنی قطعی اکثریت کھونے سے ایک غیر متوقع دھچکا لگا ہے۔
بی جے پی کو پارلیمنٹ کی 543 میں سے صرف 240 نشستوں کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے ، اپنے نیشنل ڈیموکریٹک کولیشن (این ڈی اے) میں چھوٹی پارٹیوں پر انحصار کرنا ہوگا۔
مودی کے دور حکومت میں صحافیوں پر استبداد ، بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور مسلم اقلیت کو دھمکیوں کے ساتھ ساتھ ، بھارت کی اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی اسٹیج پر اعتماد میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔
اگرچہ یہ خدشات موجود ہیں کہ بی جے پی کی ایک اور مدت کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے ، تاہم سیکولر انڈیا نیشنل کانگریس کی زیر قیادت انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس اپنی جیتی ہوئی 232 نشستوں کے باعث اپنی مضبوط اپوزیشن برقرار رکھ سکے گا۔
ایلیکس جینڈلر، وی او اے۔
فورم