فرانس: سب سے بڑے مسلم ہائی اسکول کے نصاب پرتنازع، سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ

آٹھ سو طلبہ پر مشتمل ہائی اسکول جس میں سے 400 طلبہ ریاستی کنونشن کے تحت زیر تعلیم ہیں، فائل فوٹو

فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ فرانس کی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے مسلم ہائی اسکول کے نصاب سے متعلق تنازع کے باعث اس کے لیے ریاستی سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق 20 سال قبل شمالی شہر لِلی میں قائم اویروایز اسکول کے خلاف یہ فیصلہ ایک مشاورتی کمیشن کی سفارشات کے بعد کیا گیا ہے۔ اس کمیشن نے اسکول کو ملنے والی مالی اعانت اور وہاں نصاب میں شامل مسلم اخلاقیات کا جائزہ لیا تھا۔

فرانس میں نجی اسکول حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت سبسڈی حاصل کرسکتے ہیں جس کے مطابق اسکول کا تمام طلبہ کے لیے یکساں سلوک اور تعلیم سے متعلق ریاستی ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔

متعلقہ وزارت کے حکام کے مطابق جمعرات کو کیے گئے فیصلے کی روشنی میں اویروایز اسکول کے ساتھ معاہدہ آئندہ برس منسوخ کردیا جائے گا او ر اس کے تحت فراہم کی جانے والی مالی معاونت بھی ختم کردی جائے گی۔

فرانسیسی اخبار ‘روزنامہ لی پریزیئن‘ کے مطابق کمیشن کو اسکول کے انتظامات اور اس کے نصاب میں بالخصوص مسلم اخلاقیات سے متعلق ایسی بے ضابطگیاں ملی ہیں جو اس کے نزدیک فرانس کی جمہوری اقدار کے منافی ہیں۔

حکام کے مطابق اسکول کے نصاب میں سماجی مواد جیسے’ ایل جی بی ٹی کیو‘ سے متعلق موضوعات کی کمی تھی اور مذہب سے متعلق نصاب میں دیگر مذاہب کا تعین کرنے کے لیے اسلام پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔

SEE ALSO:

ٹیچرز کے امتیازی سلوک نے اپنا اسکول بنانے کی سوچ دی

مذکورہ فیصلے کے اعلان سے قبل ہی ایورویز اسکول نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ اس کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کرے گا۔

اویروایز ہائی اسکول میں آٹھ سو طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے 400 طلبہ ریاستی کنونشن کے تحت زیر تعلیم ہیں۔ اس اسکول کے طلبہ باقاعدگی سے امتحانات میں اچھے نمبرز حاصل کرتے رہے ہیں تاہم 2014 میں اسے قطر سے ملنے والی گرانٹ کے بعد یہ اسکول مقامی حکام کی نظروں میں آگیا تھا۔

واضح رہے کہ اندلس سے تعلق رکھنے والے بارہویں صدی عیسوی کے مسلم سائنس دان، فلسفی اور عالم ابنِ رشد کو مغربی زبانوں میں اویروایز کہا جاتا ہے اور مذکورہ اسکول بھی انہیں کے نام سے موسوم ہے۔

نیشنل اسکول کے انسپکٹرز نے 2020 کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انہیں اسکول میں قومی ہدایات کی خلاف ورزی نظر نہیں آئی۔ تاہم نومبر میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں مقامی حکام نے اویروایز اسکول پر غیر قانونی مالی اعانت حاصل کرنےکا شبہ ظاہر کیا اور ایسے مواد کی نشان دہی کی تھی جس میں توہین مذہب کرنے والے کو سزائے موت یا صنفی بنیادوں پر علیحدگی کی حمایت کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ اسکول پر مصر کی ایک اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ روابط کا شبہہ بھی ظاہر کیا گیا۔

اسکول کے وکیل جوزف بریہم کا کہنا ہے کہ مقامی حکام کے علاوہ کسی نے ان الزامات پر یقین نہیں کیا اور پولیس یا عدالت نے اسکول کے منتظمین میں سے کسی سے بھی ان الزامات سے متعلق تفتیش نہیں کی ہے۔

اس خبر کے لیے معلومات فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔